ایران کی ’اشتعال انگیزی‘:امریکہ کا خلیج میں مصنوعی ذہانت، ڈرونز کا منصوبہ

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون خلیج کے علاقے کی نگرانی کے لیے پانی پر تیرنے والے ڈرونز اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔

27 جنوری، 2022 کی امریکی سینٹرل کمانڈ کی جاری کردہ اس تصویر میں امریکی سیل ڈرون ایکسپلورر کو خلیج عرب میں دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے خلیج میں فضا، زمین اور پانی کے اندر تیرنے والے ڈرونز کے استعمال کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اس علاقے کی وسیع سطح پر نگرانی کرنا ہے۔

ایران کی طرف سے امریکی بحریہ کی عملے کے بغیر کشتیوں کو قبضے میں لینے کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ امریکی محکمہ پینٹاگون نے دفاع وسیع علاقوں کی نگرانی کے لیے فضا، زمین اور پانی کے اندر ڈرونز کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اس مقصد کے لیے مصنوعی ذہانت سے کام لیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سال پرانے پروگرام کے تحت جزیرہ نما عرب کے آس پاس کے پانیوں میں عملے کے بغیر کشتیاں استعمال کی جا رہی یں۔ یہ کشتیاں ڈیٹا اور تصاویر اکٹھی  کر کے انہیں خلیج میں ڈیٹا جمع کرنے کے مراکز تک پہنچاتی ہیں۔

یہ پروگرام بغیر کسی واقعے کے چلتا رہا یہاں تک کہ ایرانی فورسز نے 29، 30 اگست اور یکم ستمبر کو دو کارروائیوں  میں تین سات میٹر طویل عملے کے بغیر سیل ڈرونز کشتیوں(تیرنے والے ڈرونز) کو پکڑنے کی کوشش کی۔

سب سے پہلے ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک بحری جہاز نے خلیج میں تار کی مدد سے ایک سیل ڈرون کو کھینچنا شروع کیا۔ اسے تب چھوڑا گیا جب علاقے میں گشت کرنے والی امریکی بحریہ کی کشتی اور ہیلی کاپٹر تیزی سے جائے وقوعہ کی طرف بڑھے۔

دوسرے واقعے میں ایک ایرانی بحری جہاز نے بحیرہ احمر میں دو سیل ڈرونز کو اٹھا کر انہیں عرشے پر رکھ دیا۔

امریکی بحریہ کے دو جہازوں اور ہیلی کاپٹر تیزی سے پہنچے اور ایران کو اگلے دن انہیں چھوڑنے پر آمادہ کیا۔ تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ان پر سے کیمرے اتار لیے گئے۔

ایران کے مطابق عملے کے بغیر امریکی کشیاں جہاز رانی کے بین الاقوامی راستوں پر تھیں اور ممکمہ حادثے سے بچنے لیے ایسا کیا گیا۔ دوسری جانب امریکی بحریہ کا مؤقف ہے کہ کشتیاں جہاز رانی کے راستوں سے دور کام بخوبی کام کر رہی تھیں اور ان پر کوئی ہتھیار نہیں تھے۔

امریکی بحریہ کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے ایرانی اقدامات کو ’اشتعال انگیز، غیر ضروری اور پیشہ ور بحریہ کے رویے سے متصادم ‘ قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فورسز کہیں بھی پرواز، سمندر میں گشت اور دوسرا کام کرتی رہیں جہاں بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سیل ڈرونز کو بحرین میں قائم امریکہ کے پانچویں فلیٹ کی ٹاسک فورس 59 کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹاسک فورس عملے کے بغیر نظام اور مصنوعی ذہانت کو مشرق وسطیٰ میں کی جانے والی کارروائیوں کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

امریکی ففتھ فلیٹ کے ترجمان کمانڈر ٹم ہاکنز نے اے ایف پی کو بتایا کہ پرواز کرنے اور زیر آب چلنے والے ڈرونز اچھی طرح بنائے گئے ہیں اور ان کی کارکردگی ثابت ہے لیکن عملے کے بغیر کشتیاں بہت نئی ہیں لیکن اس کے باوجود مستقبل میں ضروری ہوں گی۔

گذشتہ سال کے آغاز سے امریکی بحریہ اور علاقائی شراکت داروں نے سست یو ایس ویز جیسے کہ سیل ڈرونز اور بیٹری سے چلنے والی سپیڈ بوٹس  مانٹاس ٹی۔12 دونوں کو تعینات کیا ہے۔

سولر پینلز اور سیل ونگز سے آراستہ سیل ڈرونز کئی سینسر اور کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک سال تک سمندر میں رہ کر سیٹلائٹ کے ذریعے ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

سان فرانسسکو میں قائم سیل ڈرون خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے دنیا بھر میں تقریباً ایک سو کشتیاں آپریٹ کرتا ہے۔ یہ خدمات حاصل کرنے والوں میں پینٹاگون، بڑے سمندری ادارے، موسمیاتی ایجنسیاں، اور ماہی گیری اور آلودگی کا مطالعہ کرنے والی تنظیمیں شامل ہیں۔

کمپنی کی ترجمان سوزن ریان کے بقول: ’ 2019 میں انٹارکٹیکا کا چکر لگانے اور پھر گذشتہ سال کیٹیگری فورکے سمندری طوفان کا سامنا کرنے کے بعد، واقعی ایسا کوئی سمندری ماحول نہیں ہے جہاں ہمارے ڈرونز کام نہیں کر سکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا