وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کو جبری رخصتی پر بھیج دیا گیا

صوبائی حکومت کے اعلامیے میں ڈاکٹر افتخار کو ہٹانے کی وجہ گومل یونیورسٹی کی جانب سے زرعی یونیورسٹی کے قیام میں رکاوٹ بننا بتایا گیا ہے۔

16 ستمبر، 2022 کی اس تصویر میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے طلبہ کو اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے دیکھا جا سکتا ہے(تصویر: محمد شاہد)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع گومل یونیورسٹی 19 ستمبر کو ایک ہفتے کی بندش کے بعد کھول تو دی گئی تاہم اسی دن صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد کو تین ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا ہے۔ 

 زرعی یونیورسٹی کے ڈاکٹر مسرور الہی بابر کو گومل یونیورسٹی کا اضافی چارج بھی سونپ دیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ دو صفحات پر مشتمل یہ اعلامیہ انڈپینڈنٹ اردو کو بھی موصول ہو چکا ہے، جس میں ڈاکٹر افتخار کو ہٹانے کی وجہ گومل یونیورسٹی کی جانب سے زرعی یونیورسٹی کے قیام میں رکاوٹ بننا بتایا گیا ہے۔

اس اعلامیے کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ’گومل یونیورسٹی میں حالیہ تنازعے اور خراب حالات پر ڈاکٹر افتخار احمد نے قائم مقام گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر مشتاق غنی کو خط لکھا جس کے بعد صورت حال کے جائزے سے معلوم ہوا کہ امن وامان خراب ہونے کی بنیادی وجہ زرعی یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی کے درمیان اثاثوں کی تقسیم تھی۔‘ 

اعلامیے میں کہا گیا کہ گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر یاد دہانیوں کے باوجود تنازعات حل کرنے میں ناکام رہے۔

’ان واقعات کی روشنی میں وزیراعلی کی ہدایات پروائس چانسلر کو تین ماہ کے لیے جبری رخصتی پر بھیجا جارہا ہے۔ جس پر فوری عمل درآمد ہو گا، تاہم اس دوران ڈاکٹر افتخار کو ذاتی طور پر وضاحت دینے کا موقع دیا جائے گا۔‘

گومل یونیورسٹی کے ترجمان راجہ عالم زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پروفیسر مسرور الٰہی نے اضافی چارج آج ہی سے سنبھال لیا ہے، اور یونیورسٹی حکومتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے انہیں تین ماہ کے لیے اپنا وائس چانسلر تسلیم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے معاملے میں طلبہ بھی تقسیم ہیں، جن میں کچھ ان کے خلاف تو کچھ ان کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر سابق وائس چانسلر کیوں زرعی یونیورسٹی کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، تو انہوں نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر افتخار احمد نے کبھی بھی اس کی مخالفت کی اور نہ اس میں رکاوٹ بنے۔

انہوں نے کہا، ’دراصل ان کا موقف یہ رہا ہے کہ ایک یونیورسٹی کو توڑ کر دوسری یونیورسٹی کیوں بنائی جا رہی ہے۔‘

اس حوالے سے جب وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش سے انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ سابق وی سی باتوں کو توڑ مروڑ کرپیش کر رہے ہیں تاکہ خود کو مظلوم ثابت کر سکیں۔ ’کوئی یونیورسٹی نہیں توڑی جا رہی ہے۔ ایک اچھا قدم اٹھایا جا رہا ہے، تقریباً چار ہزار کنال پر محیط گومل یونیورسٹی ہے، کافی زمین بے کار پڑی ہے۔ ڈیرہ صوبے کو بہت بڑا زرعی ضلع ہے، اگر زرعی یونیورسٹی بن گئی تو بہت بڑا فائدہ ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ زرعی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ نہ صرف صوبائی کابینہ کی جانب سے منظور ہوا تھا، بلکہ جب یہ کیس عدالت میں تھا تو پشاور ہائی کورٹ نے بھی صوبائی حکومت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

’یہی نہیں بلکہ خود یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اور سینیٹ سے بھی اس کی متفقہ منظوری ہوئی تھی۔ واحد رکاوٹ یہ وائس چانسلر رہے ہیں، جن کے ساتھ خدا جانے کیا مسئلہ ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وائس چانسلر افتخار احمد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامی صحافی نثار بیٹنی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ یونیورسٹی پیر کو کھل گئی تھی تاہم انتظامیہ مخالف طلبہ کا احتجاج منگل کے روز بھی جاری رہا۔ ان طلبہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے وائس چانسلر کو تین ماہ کے لیے بھیجنے کی بجائےمستقل طور پر کیوں نہیں ہٹایا؟

نثار بیٹنی نے بتایا کہ گومل یونیورسٹی کا سب سے بڑا مسئلہ زرعی یونیورسٹی کا قیام ہے، تاہم اس کے علاوہ بھی کئی مسائل اس یونیورسٹی کو خبروں میں لانے کا سبب بن رہے ہیں۔ 

’ان میں الائیڈ ہیلتھ سائنس جو کہ گومل یونیورسٹی میں دو سال قبل شروع کیا جانے والا ایک ڈگری کورس تھا، بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس میں داخلہ لینے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اس کی منظوری نہیں لی تھی اور طلبہ کو اندھیرے میں رکھا گیا، جس کی وجہ سے ان کا مستقبل خراب ہو سکتا ہے۔‘

صحافی کے مطابق، یونیورسٹی انتظامیہ اس بابت تردید کر چکی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایچ ای سی اس ڈگری کو منظور کر چکی ہے اور بہت جلد انہیں تحریری اسناد بھی مل جائیں گی۔

بیٹنی نے مزید بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ایک بہت بڑا زرعی ضلع ہے، اور ڈیرہ شہر سے کچھ ہی فاصلے پر دریائے سندھ بہہ رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ گومل یونیورسٹی میں پہلے صرف ایک زرعی ڈیپارٹمنٹ ہوا کرتا تھا، لیکن وفاق میں ن لیگ حکومت کے دوران 2016 میں نواز شریف نے جس وقت ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے ہی زرعی یونیورسٹی کی اہمیت اور قیام کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس کی منظوری دی تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دوسرے مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل گومل یونیورسٹی میں مختلف لابیز موجود ہیں جو وہاں اپنی من مانیاں کرتی رہتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی کو جگہ نہ دینے میں رکاوٹ بننے والوں کا خدشہ یہ ہے کہ اس سےگومل یونیورسٹی کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ گومل یونیورسٹی میں گذشتہ دو ہفتوں سے طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کی وجہ سے ہاسٹل کے مسائل سمیت زرعی  یونیورسٹی کا قیام، الائیڈ ہیلتھ سائنسز ڈگری کا مسئلہ، فیسوں میں اضافہ اور معطل شدہ وائس چانسلر پر کرپشن کے الزامات بتائے جارہے ہیں۔

جبری رخصتی پر بھیجے گئے پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور بھی طلبہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ انہوں نے وائس چانسلر کو موبائل پیغام میں دھمکی بھیجی تھی، جس کے خلاف نہ صرف انہوں نے قائم مقام گورنر کو خط لکھا بلکہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں بھی شکایت کی۔

اگرچہ علی امین گنڈا پور نے اس پر کوئی بات نہیں کی ہے تاہم انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک اجتماع سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے مسائل سے باخبر ہیں اور وہ اپنی انا کی وجہ سے یونیورسٹی اور طلبہ کے مستقل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ 

گومل یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج اور امن وامان کی صورت حال خراب ہونے کے سبب یونیورسٹی انتظامیہ نے 13 ستمبر کو ایک اعلانیہ جاری کرکے یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس