صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں تاریخی گومل یونیورسٹی کئی دنوں کے احتجاج اور ایک ہفتے کی بندش کے بعد پیر کو طلبہ کے لیے پھر سے کھول دی گئی ہے۔
اتوار کو یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اجلاس میں متفقہ طور پر دو قراردادیں بھی منظور کر لی گئیں، جن میں کہا گیا کہ کسی صورت گومل یونیورسٹی کے اثاثے زرعی یونیورسٹی کو نہیں دیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ یہ بھی منظور کیا گیا کہ حکومت گومل یونیورسٹی کو فوری طور پرگرانٹ دے کر مالی مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ترجمان گومل یونیورسٹی راجہ عالم زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طلبہ کے تمام مطالبات انتظامیہ نے مان لیے ہیں، جس میں ہوسٹل سمیت دیگر مسائل شامل تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف رہنما اور سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپورنے وائس چانسلر کو استعفیٰ دینے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ’ممکنہ نتائج‘ کے لیے تیار رہنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر شروع ہوچکی ہیں اور کلاسز لی جارہی ہیں۔
ترجمان کے مطابق: ’حالیہ مسائل پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد کی آج ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کے ساتھ خصوصی ملاقات بھی ہوئی ہے، جس میں موخرالذکر نے بھرپور تعاون فراہم کرنے کا اظہار کیا۔‘
راجہ عالم زیب نے بتایا کہ الائیڈ ہیلتھ سائنس کے حوالے سے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چئیرمین ایچ ای سی نے کہا کہ گومل یونیورسٹی کا بی-ایس پروگرام دو سال قبل شروع ہوا تھا لہذا اس حوالے سے جاری اعلامیے کا اطلاق اس حکم کے جاری ہونے کے بعد ہونے والے پروگرامز پر ہوگا۔
ترجمان گومل یونیورسٹی نے مزید بتایا: ’گومل یونیورسٹی کی حالیہ صورت حال میں سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے جو کردار نبھایا اور جو دھمکی آمیز پیغام انہوں نے وائس چانسلر افتخار احمد کو بھیجا ہے اس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی مداخلت سے متعلق بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیں گے کیونکہ اب وہ کوئی بھی بات قانونی مشاورت کے بغیر نہیں کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا: ’میں علی امین گنڈا پور کی مداخلت کو سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مداخلت نہیں بلکہ ایک انفرادی مداخلت کہوں گا۔‘
علی گنڈا پور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے معاملات میں دخل اندازی کرنے، طلبہ کو اکسانے اور طلبہ کے احتجاج کے دوران انہیں سہولیات پہنچانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
اس کے علاوہ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے وائس چانسلر کو استعفیٰ دینے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور ایسا نہ کرنے کی صورت ’ممکنہ نتائج‘ کے لیے تیار رہنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے گنڈاپور سے ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔
گومل یونیورسٹی میں حالیہ تنازعے کا پس منظر:
گومل یونیورسٹی میں ہوسٹل، کھانے پینے، بسوں کی پک اینڈ ڈراپ، کرایوں، زیادہ فیس اور بعض ڈیپارٹمنٹس کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ نہ ہونے پر احتجاج یوں تو کافی عرصے سے جاری تھا، تاہم اس میں شدت اس وقت آگئی جب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کئی طلبہ پر مقدمات درج کیے گئے۔
اس دوران طلبہ مزید احتجاج کرنے لگے اور انہوں نے وائس چانسلر پر کرپشن کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ جامعہ کے فنڈز میں خرد برد کرتے رہے ہیں، جس کا خمیازہ یونیورسٹی اور طلبہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر اور طالب علم نعمت وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان سمیت 150 طلبہ پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور کئی طلبہ پر ’تشدد‘ بھی ہوا ہے۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر، انتظامیہ اور وائس چانسلر کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور امن خراب کرنے پر ہوئی ہے۔
اس سے قبل سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا کو بتایا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے حالات سے باخبر ہیں اور وہ اس پر ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ڈھائی سال قبل خیبر پختونخوا حکومت نے گومل یونیورسٹی کی اراضی پر زرعی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن صوبائی حکومت کی رضامندگی اور فیصلے کے باوجود وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے اس کی مخالفت کی، جس کے بعد یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا۔
یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس کے بعد یونیورسٹی میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے حامی طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ایک محاذ بنا لیا۔ مبینہ طور پر گنڈا پور کی دھمکیوں کے نتیجے میں وائس چانسلر نے قائم مقام گورنر و یونیورسٹی چانسلر خیبر پختونخوا مشتاق غنی کو بھی ایک خط لکھا کہ، ’نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے بلکہ ان کو دھمکایا بھی جارہا ہے۔‘
انہوں نے خط میں لکھا: ’سابق وزیر کی جانب سے ان کو استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں برا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی ہے۔‘
اس خط میں وفاقی وزیر کے مبینہ وٹس ایپ پیغامات کو شریک کرتے ہوئے لکھا گیا: ’آپ برائے مہربانی جلد از جلد مستعفی ہوجائیں کیونکہ آپ کی وجہ سے یونیورسٹی اور صوبائی حکومت کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچا ہے۔ اگر میں طلبہ کے ساتھ مل گیا تو پھر بہت برا ہوگا۔‘
وائس چانسلر نے قائم مقام گورنر سے مخاطب ہوتے ہوئے خط میں لکھا کہ ان کی جان، خاندان اور عزت خطرے میں ہیں اور اسی لیے وہ انہیں بروقت خبردار کرنے سمیت ان کے احکامات کے منتظر ہیں۔
ان حالات کے پیشِ نظر گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے علی امین خان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پشاور کو بھی خط لکھا ہے۔