پوتن کی جوہری دھمکی اقوام متحدہ کی رکنیت کی خلاف ورزی: بائیڈن

 اس سے قبل ولادی میر پوتن کہا تھا کہ ’وہ جو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں سے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں انہیں جاننا چاہیے کہ ہوا کا رخ ان کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن 21 ستمبر 2022 کو نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے دوران خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو روس کی طرف سے ’غیر ذمہ دارانہ‘ جوہری دھمکیوں کو اقوام متحدہ کی رکنیت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں امریکی صدر نے روسی صدر ولادی میر پوتن کی جانب سے  یوکرین پر حملے کی مذمت کی۔

اپنے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ روسی صدر کی بلا اشتعال جنگ سے اقوام متحدہ کے 40 اراکین نمٹ رہے ہیں۔

بائیڈن نے کہا: ’ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن نے اپنے پڑوسی پر حملہ کیا، ایک خودمختار ریاست کو نقشے سے مٹانے کی کوشش کی۔ روس نے بےشرمی سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

اس سے قبل بدھ کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے ایک تقریر میں یوکرین میں لڑنے کے لیے روسی افواج کو متحرک ہونے کا حکم دیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی، جسے نیٹو نے روسی شکست کو چھپانے کی ایک ’غیر محتاط‘ کوشش قرار دیا ہے۔

امریکی صدر نے کہا: ’ایک جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور کبھی لڑنی نہیں چاہیے۔‘

بائیڈن نے کہا کہ روسی دعووں کے برعکس کسی نے بھی روس کو دھمکی نہیں دی تھی اور صرف روس ہی تنازع چاہتا تھا۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی میں کھڑا رہے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وائٹ ہاؤس نے عالمی غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے 2.9 ارب ڈالر کی اضافی امریکی فنڈنگ کا بھی اعلان کیا، جو کہ اس سال پہلے سے مختص کی گئی امریکی فوڈ سکیورٹی فنڈنگ کے 6.9 ارب ڈالر کا حصہ بنے گی۔

فروری میں شروع ہونے والی یوکرین میں جنگ کے تناظر میں امریکہ نے اپنا رجحان فوڈ سکیورٹی کی جانب بڑھا لیا ہے۔ یہ غذائی بحران عالمی کرونا وبا اور ماحولیاتی تبدیلی کے بعد سے بدتر ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ روس یوکرین تنازعے نے مزید پانچ کروڑافراد کو ’غذائی قلت‘ کی جانب دھکیل دیا ہے۔

امریکہ اور مغربی اتحادی سفارتی اثر و رسوخ کے لیے روس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ ممالک کو تشویش ہے کہ یوکرین جنگ نے عالمی توجہ دیگر بحرانوں سے ہٹا دی تھی۔

وائٹ ہاؤس نے ایک فیکٹ شیٹ میں کہا: ’2.9 ارب ڈالر کا یہ نیا اعلان ہنگامی مداخلت کے ذریعے جانیں بچائے گا اور دنیا کی سب سے زیادہ کمزور آبادیوں کو بڑھتے ہوئے عالمی غذائی بحران سے بچائے گا۔‘

’خالی خولی دھمکی نہیں ہے‘

اس سے قبل قوم سے پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب میں پوتن نے مغربی ممالک پر الزام لگایا تھا کہ وہ یوکرین کی حمایت کر کے ان کے ملک کو ’تباہ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پوتن نے کہا کہ پوتن نے مزید کہا کہ ’وہ جو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں سے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں انہیں جاننا چاہیے کہ ہوا کا رخ ان کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ روس کو یوکرین میں ان لوگوں کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے جو ’اپنے مستقبل کا خود تعین‘ کرنا چاہتے ہیں۔
ولادی میر پوتن نے جزوی طور پر افواج کو متحرک کرنے کا اعلان کیا، جب کہ روسی وزیر دفاع سرگے شوئیگو نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ تقریباً تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو بلایا جائے گا۔

 

 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا