روس کے مقبوضہ یوکرینی علاقوں میں روس الحاق کا ریفرینڈم ہو گا

دونیتسک اور لوگانسک کے علاقوں میں جمعے سے روس سے الحاق کی ووٹنگ کروائی جائے گی، تاہم یوکرین نے اسے ’نمائشی اقدام‘ کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔

ایک یوکرینی فوجی 20 ستمبر 2022 کو روس کے چھوڑے ہوئے ٹینک کا جائزہ لے رہا ہے (اے ایف پی)

یوکرین کے علیحدگی پسند حکام نے منگل کو کہا ہے کہ ماسکو کے زیر قبضہ علاقے آنے والے دنوں میں روس کے ساتھ الحاق پر ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف یوکرینی فوج نے روس کی طرف سے قبضے میں لیا گیا علاقہ واپس لے لیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مشرقی علاقوں دونیتسک اور لوگانسک کے ساتھ ساتھ خیرسن کے جنوبی علاقے میں علیحدگی پسند حکام کا کہنا ہے کہ وہ  اس ہفتے جمعے سے شروع اور منگل کو ختم ہونے والے پانچ دنوں میں ووٹ ڈالیں گے۔

یہ علاقے یوکرین کے بھرپور جوابی حملے میں اگلے محاذ پر ہیں۔ حملے میں یوکرین کی فوج نے وہ سینکڑوں قصبے اور دیہات واپس لے لیے جو کئی ماہ تک روس کے زیر انتظام رہے۔

ان علاقوں کا روس میں انضمام کا مطلب لڑائی کی شدت میں بڑا اضافہ ہو گا کیوں کہ یہ کہنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ وہ یوکرین فوج کے حملے کے خلاف اپنے علاقوں کا دفاع کر رہا تھا۔

کیئف نے کہا ہے کہ ’نمائشی‘ ووٹنگ کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیئف نے عہد کیا وہ روس کی طرف سے لاحق خطرات کا خاتمہ کر دے گا۔ کیئف کا کہنا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ ماسکو اور اس کے لیے کام کرنے والوں نے کیا اعلان ہے، اس کی فوج علاقے واپس لیتی رہے گی۔

لوگانسک میں علاقے میں علیحدگی پسند رہنما دینس میروشنی چینکو نے کہا کہ روس نواز قانون سازوں نے 23 سے 27 ستمبر ووٹنگ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد دونیتسک میں علیحدگی پسند حکام سے منسلک نیوز پورٹل نے کہا کہ انہی تاریخون پر ووٹنگ کا اہتمام کیا جائے گا۔

صنعتی علاقے دونبیس کے بڑے حصے دونیتسک اور لوگانسک پر مشتمل ہیں جن پر 2014 سے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کی عمل داری ہے۔ اس سے ملک گیر مظاہروں کے بعد کریملن دوست یوکرینی صدر کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔

تاریخی انصاف کی بحالی

اس کے ساتھ ہی روس نے بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع جزیرہ نما کرائمیا کو ووٹ کے ذریعے یوکرین سے الگ کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ اس اقدام کو کیئف اور مغرب نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مغربی ملکوں نے روس پر پابندیاں عائد کر دیں۔

یوکرین کے جنوبی علاقے خیرسن کے حکام نے بھی منگل کو اعلان کیا ہے کہ وہ انہی تاریخوں پر روس سے الحاق کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روس کی طرف بنائے گئے علاقے کے سربراہ ولادی میر سالدو کے بقول: ’مجھے یقین ہے کہ خیرسن کے علاقے کی روسی فیڈریشن میں شمولیت سے علاقہ محفوظ اور تاریخی انصاف بحال ہو گا۔‘

انہوں نے روس کے سابق صدر اور وزیر اعظم کا ایک جملہ دہرایا جو انہوں نے قبل ازیں دن میں لکھا تھا۔ انہوں نے تاریخی غلطیاں درست کرنے کی بات کی تھی لیکن یہ بھی کہا کہ اس ووٹنگ سے روسی فوج کو تقویت ملے گی۔

دمتری میدویدوف جو اب روس کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین ہیں، نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’روس کے علاقے پر تجاوز جرم ہے اور اگر یہ جرم کیا گیا تو آپ کو اجازت ہو گی کہ اپنے دفاع کے لیے تمام ممکنہ طاقت استعمال کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں پر عمل ضروری ہو گا مستقبل میں کسی روسی رہنما کو اختیار نہیں ہو گا کہ وہ یہ فیصلے واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کیئف اور مغرب ان ریفرنڈمز سے اتنے خوفزہ ہیں۔ اسی بنا پر ان کے اہتمام کی ضرورت ہے۔

یوکرین کے علاقے زاپوریزیا، جہاں یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ واقع ہے، میں روس نواز حکام نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ روس میں شامل ہونے کے لیے انہی تاریخوں پر ووٹنگ کا اہتمام کریں گے۔ 

زاپوریزیا میں روس کی طرف سے قائم کی گئی انتظامیہ کلے سربراہ ایوگنی بلتسکی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ انہوں نے علاقے کی علاقائی وفاداری کے لیے ووٹنگ کروانے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔ 

یوکرین کے صدر وولودی میرزیلنسکی کے چیف آف سٹاف ایندری یرمک نے روس کے ساتھ الحاق کے ووٹ کے معاملے پر فیصلہ کن جواب کا عہد کیا ہے۔
’نمائشی ووٹنگ‘

یرمک کا کہنا تھا کہ ’یوکرین روسی مسئلہ حل کر دے گا۔ خطرے سے صرف طاقت کے ساتھ خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔‘
وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے کہا کہ ’نمائشی‘ ریفرنڈموں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

انہوں نے ایک آن لائن بیان میں کہا کہ ’یوکرین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے آزاد کروائے اور خواہ روس کچھ بھی کہے وہ انہیں آزاد کرواتا رہے گا۔‘

روس کے یوکرین پر تقریباً سات ماہ سے جاری حملے کے دوران ریفرنڈم فیصلہ کن لحمے پر آیا ہے۔ اس ماہ روس کو میدان جنگ میں پریشان کن نقصانات اٹھانے پڑے تھے کیوں کہ یوکرینی فوج نے ماسکو کی فوج سے سینکڑوں قصبے اور دیہات واپس لے لیے۔

سیاسی تجزیہ کار تاتیانا ستینووایا نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ووٹنگ کے اعلانات جوابی حملے کی کامیابی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر پوتن نئے الحاق شدہ علاقوں سمیت روسی علاقے کے دفاع کے لیے  روس کی فوج کے مکمل استعمال کی دھمکی دینا چاہتے ہیں جس میں جوہری ہتھیار بھی شامل ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ’پوتن یہ جنگ میدان میں نہیں جیتنا چاہتے۔ پوتن چاہتے ہیں کہ کیئف لڑے بغیر ہتھیار ڈال دے۔‘
منگل کو ماسکو میں نئے تعینات کیے جانے والے غیر ملکی سفیروں سے بات چیت میں پوتن نے کہا کہ روس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے بین الاقوامی سٹیج پر اپنے ’خود مختار راستے‘ پر سفر جاری رکھے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا