پاکستان کو پائپ لائن سے گیس کی فراہمی ممکن: پوتن

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان آج شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران ملاقات ہوئی جس کے بعد روسی خبر رساں ایجنسی تاس سے یہ بیان سامنے آیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان آج شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران ملاقات (تصویر: پی ایم آفس)

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان آج شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران ملاقات ہوئی جس میں صدر پوتن نے کہا کہ ’روس سے پاکستان کو گیس کی سپلائی پائپ لائن سے ممکن ہے جس کا کچھ انفراسٹرکچر پہلے ہی بنا دیا گیا ہے۔‘

روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں افغان مسئلے کو حل کرنا ہے۔ یقیناً یہ سب سیاسی استحکام سے جڑے مسائل ہیں لیکن افغان عوام کے ساتھ ہمارے باہمی اچھے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے امید ہے کہ یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ملک کی صورتحال پر پاکستان کا اثرورسوخ ہے۔‘

روس کے صدر نے کہا کہ مجموعی طور پر روس اور اسلام آباد کے منصوبے ہم آہنگ ہیں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔

انہوں نے پاکستانی سٹریم پراجیکٹ کا بھی ذکر کیا جو مائع قدرتی گیس کی فراہمی کے لیے انفراسٹرکچر کی فراہمی سے مشروط ہے۔

ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سمرقند میں ہوئی۔

اس سے قبل شہبازشریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس کے موقع پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔

اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف بدھ کی صبح اپنے دو روزہ دورے کے لیے سمرقند پہنچ گئے۔ روانگی سے قبل سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر معاشی حالات میں خرابی کی وجہ سے ایس سی او ممالک میں تعاون ضروری ہوگیا ہے۔ ’ایس سی او کا نقطہ نظر دنیا کی 40 فیصد آبادی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سے قبل ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف 15 سے 16 ستمبر کو ازبکستان کا دورہ کریں گے۔ اجلاس میں عالمی اور بالخصوص خطے کو درپیش تمام مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ ایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم ازبک صدر شوکت مرزیوئیف کی دعوت پر 15 اور 16 ستمبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کونسل کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ سائیڈ لائنز پر دیگر شریک رہنماؤں سے دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے۔ یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے لیکن ان کے ساتھ ابھی پاکستانی ہم منصب کی کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔

رواں برس شنگھائی تعاون تنظیم کا ایجنڈا کیا ہے؟

بائیسویں سربراہی اجلاس میں خطے کے رکن ممالک کے مابین تجارتی روابط مضبوط کرنے پر بات چیت کی جائے گی کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے کہ 2030 تک رکن ممالک کے مابین معاشی و تجارتی تعلقات مضبوط ہو جائیں کیونکہ یہ خطے کی باہمی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ایشیائی خطے میں امن کا قیام اور سکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چین اور روس کے مابین یوکرین جنگ اور اس کے بعد سے خطے اور عالمی دنیا میں پیدا ہونے والے اثرات پر بھی بات چیت ہو گی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت؟

شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی بین علاقائی تنظیم ہے جس کا باقاعدہ قیام 2001 میں ہوا۔ اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔

ابتدائی اراکین میں چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔ جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ لیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔

بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔ 2017 میں آستانہ میں ہوئے اجلاس میں جہاں بھارت اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے۔

افغانستان، بیلا روس، ایران اور منگولیا آبزرور رکن ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال، ترکی، آزربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔

2012 سے افغانستان اس سکورٹی، سیاسی اور اقتصادی تنظیم کے اجلاسوں میں بطور مبصر شرکت کرتا رہا ہے لیکن اس بار اسے مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اہم کیسے؟

سفارتی امور کے ماہر سینیئر صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو بتایا کہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کہ تباہ کن سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پیدا ہونے والی صورت حال پر بڑے ممالک تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اس اجلاس کا ایجنڈا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب سے تباہی پر بھی بات ہونے کا امکان ہے اور اسلام آباد کو مزید امداد مل سکتی ہے۔

’پاکستان کی یہ بھی توقعات ہیں کہ افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کا حل نکلے تاکہ باقی ممالک پر اس کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ خطے میں موجود رکن ممالک کے مابین تجارتی روابط پر بھی پاکستان اپنا نقطہ نظر بیان کرے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا