اگر جوہری حملہ پوتن کی محض دھمکی نہ ہو تو؟

ہمیں اس بات پر مطمئن نہیں رہنا چاہیے کہ جنگ کے علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کا ’محدود‘ استعمال شہر کو تباہ کر دینے والے ’سٹریٹیجک‘ حملے سے کسی طرح کم تباہ کن ہو گا۔

روسی صدر ولادی میر پوتن 16 ستمبر 2022 کو سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں (اے ایف پی) 

’میں دھمکا نہیں رہا۔‘ یہ وہ تین الفاظ ہیں جو روس کے صدر ولادی میر پوتن نے قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں کہے۔ ان لفظوں سے لگتا ہے کہ ایٹمی جنگ کی دھمکی دی گئی۔

روسی صدر کے ’تباہ کن ہتھاروں‘ کے بارے میں بیان کے بعد میڈیا میں ان کے وفاداروں نے اس حوالے سے باتیں شروع کر دیں۔ روس کے سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی کی ایڈیٹر انچیف مارگریٹا سمونیان نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ یا تو ’ہماری ناگزیر فتح کی دہلیز یا پھر ایٹمی جنگ کی دہلیز ہے۔‘

تو کیا روسی صدر دھمکا رہے ہیں یا نہیں؟ مغربی دنیا میں یہ مفروضہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ بس دھمکا رہے ہیں اور یہ کہ 60 سال پہلے نکیتا خروشیف کی طرح پوتن پہلے پلک جھپکیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی دھمکی کو چیلنج کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ’ہم روسی جارحیت کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘ دوسرے مغربی رہنماؤں نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔

پوتن یوکرین پر حملے کے بعد بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے کوئی فوجی حملہ نہیں کیا۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ دھمکا نہیں رہے تو ہمیں ان کی بات پر کیوں یقین نہیں کرنا چاہیے؟

جب میں نے گذشتہ رات کے ’چینل فور نیوز‘ پر پوتن کی پرجوش حامی اور سابق سیاست دان نتالیا ناروچنستکایا سے پوچھا کہ آیا روسی صدر واقعی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر تیار ہیں تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ ’نہیں، نہیں‘ انہوں نے اصرار کیا کہ ’وہ پوری دنیا میں عالمی انسانی آفت اور تباہی کو روکنے کے معاملے میں بہت نرم رویہ رکھتے ہیں۔ آپ کو ممکنہ روسی حملے کے معاملے میں بلاشبہ ڈرنا نہیں چاہیے۔‘

تاہم بہت زیادہ خوف باقی ہے کہ شاید مغربی ردعمل میں خطرناک اطمینان کا شائبہ ملتا ہے یا کم از کم دلیری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش جا رہی ہے تا کہ لوگ مزید خوفزدہ نہ ہوں۔ 

مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے جون میں امریکی وزیر دفاع بین والیس نے اس وقت لوگوں سے ملاقات میں اس جملے پر غور کیا تھا کہ ’پوتن جھوٹ نہیں بولتے۔‘ ہو سکتا ہے کہ یہ بڑا ہنسی میں اڑا دینے والا دکھائی دے لیکن والیس نے نشاندہی کی تھی کہ روس نے کچھ عرصہ پہلے یوکرین کے حوالے سے اپنے ارادے واضح کر دیے تھے اور ہم نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

والیس نے خبردار کیا تھا کہ ’پوتن بہت سی دھمکیاں دیتے ہیں۔‘ وہ اکثر انہیں عملی شکل دیتے ہیں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ وزیر دفاع کے خیالات تبدیل نہیں ہوئے، وہ اب کافی فکرمند ہوں گے۔

روسی امور کی ماہر امریکی قومی سلامتی کونسل کی سابق رکن ڈاکٹر فیونا ہل کئی ماہ سے اس نقطہ نظر کا اظہار کر رہی ہیں کہ پوتن ایٹمی جنگ سے باز نہیں آئیں گے۔ انہوں نے مارچ میں میڈیا کمپنی پولیٹیکو کو بتایا: ’پوتن کے معاملے میں بات یہ ہے کہ اگر ان کے پاس آلہ موجود ہو تو وہ اسے استعمال کرنا چاہیں گے۔ اگر آپ اسے استعمال نہیں کر سکتے تو پھر وہ آپ کے پاس کیوں ہو؟

’اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ پوتن کے پاس کوئی غیر معمولی اور ظالمانہ چیز ہو اور وہ اسے استعمال نہ کریں تو دوبارہ سوچیں۔ جب بھی آپ سوچتے کہ ’نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے۔ کیا وہ ایسا کریں گے؟‘ تو جی ہاں وہ ایسا کریں گے۔‘

کئی ماہ سے جاری فوجی مہم جس میں خود ان کے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، کے معاملے میں خطرہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اب پوتن کے پاس کھو دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ جیسا کہ غیر معمولی طور پر بہادر روسی شہری اس جنگ کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، پوتن کو ادراک ہو سکتا ہے کہ وقت نکلتا جا رہا ہے اور کسے معلوم کہ خود اپنے خاتمے کا سامنا کرتے ہوئے ان میں کیا کرنے کی صلاحیت ہے؟

ہمیں اس بات پر مطمئن نہیں رہنا چاہیے کہ جنگ کے علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کا ’محدود‘ استعمال شہر کو تباہ کر دینے والے ’سٹریٹیجک‘ حملے سے کسی طرح کم تباہ کن ہو گا۔ کوئی بھی ایٹمی حملہ تباہ کن ہوتا ہے۔ پوتن پر نظر رکھنے والوں کو احساس ہے کہ پوتن یہ بات جانتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی بات درست ہے۔

جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد، میں نے خروشیف کی پڑپوتی نینا خروشیوا سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں پوتن ایٹمی جنگ کریں گے۔ اس بات کا جواب دینے سے پہلے انہوں نے طویل توقف کیا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ یہ توقف بہت جائز تھا کیونکہ دونوں طرف سے تباہی یقینی ہو تو امید ہمارے اسلحے میں واقعی واحد ہتھیار رہ جاتا ہے۔

کیتھی نیومین ’چینل فور نیوز‘ کی میزبان اور انویسٹی گیشنز ایڈیٹر ہیں۔
 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ