پوتن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟ کیا وہ جوہری حملہ کرسکتے ہیں؟

روسی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ایک بار پھر بات ہو رہی ہے کیونکہ 21 ستمبر کو پوتن نے قوم سے تقریباً مایوس کن خطاب میں مغرب اور نیٹو کو دھمکی دی اور ’جزوی‘ فوجی نقل و حرکت کا اعلان کیا۔

کریملن کی طرف سے 21 ستمبر 2022 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں روسی صدر ولادی میر پوتن کو ماسکو میں قوم سے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی/ کریملن)

یوکرین میں جنگ کے آغاز پر وہاں کی انٹیلی جنس سروسز کی طرف سے ایک ریکارڈنگ بی بی سی کے ایک صحافی کو دی گئی۔ اسے سائبیریا میں روس کے جوہری میزائل اڈے کے ایک افسر کی جانب سے دارالحکومت کیئف میں ایک رشتہ دار کو کی گئی کال کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔

لائن خراب ہے اور ایک آدمی روسی زبان میں بول رہا ہے: ’میں نہیں جانتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ان کی (ولادی میر پوتن کی) انگلی بٹن کے اوپر منڈلا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کمانڈر ان چیف کو معلوم ہو کہ ان کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

اس روسی کا کہنا تھا کہ اس اڈے کو اپنے جوہری ہتھیاروں کو ’تیاری کی حالت میں‘ رکھنے کے لیے تین گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے اور اس سے بھی زیادہ ایک خوفناک اقدام انہیں صدر پوتن کی طرف سے کیئف اور یوکرین کے دو دیگر شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار رہنے کا کہا گیا ہے۔ تھرتھراتی آواز میں وہ کہتا ہے: ’ہو سکتا ہے کہ میں ایسا ہی کر دوں۔‘

بی بی سی کے سابق نامہ نگار پال ووڈ نے ’دی سپیکٹیٹر‘ میگزین میں ایک مضمون میں یہ تفصیل تحریر کی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت یوکرین کے ایک ریٹائرڈ جنرل نے انہیں بتایا تھا کہ یہ ریکارڈنگ خوف و ہراس پھیلانے کے خوف سے جاری نہیں کی گئی تھی۔ روسی شاید اس کال کے عام ہونے سے شاید یہی ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔

انہوں نے کہا: ’شاید انہوں نے ایک میزائل افسر کو کال کرنے کا حکم دیا تھا، یہ جانتے ہوئے کہ یوکرینی سن رہے ہوں گے۔ یقیناً یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیپ ہمارے یوکرینی اتحادیوں کی طرف سے جعلی بنائی گئی تھی لیکن تیسرا امکان یہ ہے کہ ریکارڈنگ حقیقی ہوسکتی ہے اور پوتن واقعی یوکرین پر جوہری ہتھیار داغنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ہم ایک بار پھر روسی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں بات کر رہے ہیں کیونکہ بدھ (21 ستمبر) کو پوتن نے قوم سے تقریباً مایوس کن خطاب میں نیٹو کو دھمکی دی۔ یوکرین میں میدان جنگ میں کریملن کی تازہ ترین اور سب سے زیادہ ڈرامائی پسپائی کے بعد سے وہ تیزی سے غیر متوقع ہو گئے ہیں۔

ولادی میر پوتن نے بدھ کو روس میں ’جزوی‘ فوجی نقل و حرکت کا اعلان کرتے ہوئے ریزرو فوج کو طلب کرنے کا اعلان کیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر پوتن نے قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ روسی فیڈریشن میں جزوی طور پر متحرک ہونے کے لیے وزارت دفاع اور جنرل سٹاف کی تجویز کی حمایت ضروری ہے۔‘

خارکیف شہر کے قریب یوکرین کے ایک حیرت انگیز جوابی حملے کے نتیجے میں روسی فوجی اپنی مہنگی بکتر بند گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ ایک یوکرینی کمانڈر کے یادگار الفاظ میں وہ ’اولمپک سپرنٹرز کی طرح فرار ہوگئے۔‘ یہ پسپائی نہیں بلکہ مکمل شکست تھی۔

ان حالات میں مغربی رہنما پوتن کے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا اگلا قدم کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی 21 فروری کی تقریر میں کہا کہ ’مغرب کا صرف ایک مقصد ہے: روس کی ترقی کو روکنا ۔ وہ اسے اسی طرح کرنے جا رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے پہلے کیا تھا، بغیر کسی بہانے کے، یہ صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ہم موجود ہیں۔‘

پوتن کی پالیسی کے روس میں بڑی تعداد میں مخالفین بھی ہیں جو سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہے ہیں۔

روسی صدر نے مارچ 2014 میں کریمیا کے بارے میں اپنی تقریر میں دی گئی دلیل کو دہرایا: ’روس پر قابو پانے کی سیاست، جو 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدی میں جاری رہی، آج بھی جاری ہے۔ ہمیں واپس ایک کونے میں دھکیلنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ ہماری ایک آزاد حیثیت ہے، کیونکہ ہم اپنے لیے کھڑے ہیں۔‘

تاہم چھ ماہ سے جاری لڑائی میں یوکرین پر حملے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی وضاحت روسی فیس بک وی کونٹاکٹ پر شائع ہونے والی ایک قابل ذکر یادداشت میں کی گئی ہے۔ یہ یادداشت ایک روسی پیشہ ور فوجی کی ہے، جو ایلیٹ یونٹ - 56 ویں گارڈز ایئر اسالٹ رجمنٹ میں شامل تھے۔

روسی فوجی فیلاتیو نے بتایا کہ ان کی بیرکوں میں کوئی بستر اور اکثر بجلی یا پانی نہیں تھا۔ آوارہ کتوں کا ایک گروپ عمارتوں میں گھوم رہا تھا۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ وہاں مناسب کھانا نہیں تھا، صرف باسی روٹی اور سوپ جو پانی اور کچے آلوؤں پر مشتمل تھا۔ موسم گرما کے کپڑے اور جوتے غلط سائز میں دیے جانے کے بعد انہیں موسم سرما کی وردی خود خریدنی پڑی۔ ان کی رائفل زنگ آلود تھی اور کچھ گولیوں کے بعد جام ہوگئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دستاویزات کے مطابق اس فوجی کے یونٹ میں 500 فوجی تھے، لیکن حقیقت میں صرف 300 تھے۔ اگرچہ، سرکاری طور پر تقریباً دو لاکھ فوجیوں نے یوکرین پر حملہ کیا، لیکن بعض کا خیال ہے کہ اصل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ فیلاتیو فوج کو ’مافیا‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افسران اپنی یونٹس کی اصل حالت کو چھپانے کے لیے اعلیٰ حکام سے مسلسل جھوٹ بولتے رہے۔

’یہ سب (سامان) 100 سال پرانا ہے، بہت کچھ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے، لیکن ان کی رپورٹوں میں شاید سب کچھ ٹھیک تھا۔۔۔ روسی فوج ایک پاگل خانہ ہے اور سب کچھ دکھانے کے لیے ہے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی وزیر دفاع نے جزوی فوجی نقل و حرکت کے حوالے سے بتایا: ’جن لوگوں کو بلایا گیا ہے انہیں تعینات کرنے سے پہلے فوجی تربیت دی جائے گی۔ ہمارے پاس دو کروڑ 50 لاکھ لوگ ہیں، ان میں سے صرف ایک فیصد کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائےگا اور اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوگا جو ماضی میں افواج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان لوگوں پر اطلاق نہیں ہوگا جو فوج میں بھرتی نہیں ہوئے یا طالب علم رہے۔‘

وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ تین لاکھ ریزرو افراد کو متحرک کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ روس ’یوکرین سے اتنا نہیں لڑ رہا ہے جتنا مغرب سے۔‘

روسی صدر پوتن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کی پہلی فوجی نقل و حرکت کا حکم دیتے ہوئے مغرب کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے اپنی ’جوہری بلیک میلنگ‘ جاری رکھی تو ماسکو اپنے تمام وسیع ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ روس اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے مغرب پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے ملک کو ’تباہ‘ کرنا چاہتا ہے۔

پوتن نے قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا:

جب بھی ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گا، ہم یقینی طور پر روس اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنے اختیار میں تمام ذرائع استعمال کریں گے۔

دوسری جانب ولادی میر پوتن کے اعلان کے جواب میں یوکرین کے صدر دفتر کے سربراہ اینڈری یرماک نے کہا: ’ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔‘

اسی طرح برطانوی دفتر خارجہ کے وزیر گیلین کیگن نے سکائی نیوز کو بتایا کہ بدھ کو کی گئی روسی صدر ولادی میر پوتن کی تقریر سے تشویش بڑھ گئی ہے اور ان کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

گیلین کیگن نے کہا: ’واضح طور پر یہ ایسی چیز ہے جسے ہمیں بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور مجھے یقین نہیں ہے کہ آیا ان (پوتن) کے بھی اختیار میں ہے۔ یہ واضح طور پر کشیدگی ہے۔

انہوں نے بی بی سی کو ایک الگ انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ ایک سنگین خطرہ ہے، لیکن یہ جو پہلے بھی ہو چکا ہے۔‘

کیگن نے مزید کہا: ’مجموعی خطاب واضح طور پر ولادی میر پوتن کے جھوٹ سے زیادہ تھا، یہ تاریخ دہرانا تھا۔‘

واشنگٹن ڈی سی میں ہیلسنکی کمیشن کے سینیئر پالیسی ایڈوائزر مائیکل سیسیئر کا خیال ہے کہ روس کی سلطنت کا خاتمہ ایک ’ملاوٹ سے پاک اچھائی‘ ہوگی۔ یہ کمیشن امریکی حکومت کی طرف سے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کے معاہدوں کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو کسی حد تک اب بھی روس کے ساتھ تعلقات کو دیکھتا ہے۔

سیسیر کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے مغرب روس کی جانب سے اپنی سلطنت کو محکوم بنانے میں ’نادانستہ طور پر ملوث‘ رہا ہے۔ ایک ایسے روس کی امیدیں جو اپنے ہمسایوں کی سرحدوں کا احترام کرتی ہیں اور خود روس میں لبرل جمہوریت کے لیے سب کا دارومدار ’نوآبادیات کے خاتمے‘ پر تھا۔

کیا پوتن یوکرین پر جوہری حملے کا حکم دیں گے تاکہ وہاں شکست سے بچا جا سکے اور بالآخر روس اپنا ہی خاتمہ کر دے؟ وہ یقینی طور پر یوکرین میں اپنی کوششوں کو دوگنا کر رہے ہیں۔ اس ہفتے کی ان کی تقریر سے ان کی ناکام جنگ میں مزید تین لاکھ افراد پھینک دیئے گئے ہیں۔

پوتن نے نیٹو پر الزام عائد کیا کہ وہ روس کو جوہری ہتھیاروں سے ’بلیک میل‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’اگر ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم یقینی طور پر روس اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے اپنے پاس موجود تمام وسائل استعمال کریں گے۔ یہ کوئی دھوکہ نہیں ہے۔‘

اس سے قبل ڈوما کے ایک رکن آندرے گرولیوو نے، جو کبھی سینیئر جنرل تھے، کہا تھا کہ روس برطانیہ کو ’تین منٹ میں مریخی ریگستان میں تبدیل کر سکتا ہے۔‘

فی الحال نیٹو کی حکومتیں سائبیریا سے لندن تک داغے جانے والے میزائلوں کے بارے میں کم اور روسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ چھوٹے بم جو کسی گاؤں یا رجمنٹ کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔

ایک امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ اس طرح کے چھوٹے جوہری ہتھیار یوکرین میں منتقل کیے گئے ہیں، لیکن یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔

اس کے بعد یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیا پوتن کو لگتا ہے کہ قسمت نے انہیں ’مدر روس‘ کو بچانے کے لیے منتخب کیا ہے۔ کریملن کے ایک دیرینہ مبصر کا کہنا ہے کہ ’پوتن ایک ایسے شخص ہیں جو مشن کے تاریک احساس کے قیدی ہیں۔ وہ پہلے بھی خالی خولی دھمکیاں دے چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا