روس کا جوہری حملہ کرنے کا کتنا امکان ہے؟

ماہرین نے کہا ہے کہ اگر روس نے نیٹو ملک پر حملہ کیا تو نیٹو کے دیگر ممالک کی جانب سے جوابی حملے کیے جا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔

نو مئی 2017 کی اس تصویر میں روسی فوج کے اہلکار ماسکو کے ریڈ سکوائر میں منعقد کی جانے والی ایک فوجی پریڈ میں بین البراعظمی میزائل کی نمائش کے دوران دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے اتوار کو اپنی ایٹمی ہتھیاروں کی فورس کو ہائی الرٹ پر کر دیا تو خوف پیدا ہوگیا کہ یوکرین پر روسی حملے کے تنازعے میں آگے کیا ہوگا۔ 

روسی صدر نے بین الاقوامی پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے اس اقدام کا ذمہ دار ’اقتصادی میدان میں غیر دوستانہ اقدامات‘ کو ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ نیٹو کے اراکین نے ان کے ملک کی جانب ’جارحانہ بیانات‘ دیے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔    

کریملن کے ترجمان ڈمتری پیسکوف نے پیر کو کہا کہ روسی اقدام برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس کے بیان کے جواب میں لیا گیا تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ وہ کس بیان کی بات کر رہے تھے۔

بعد ازاں لز ٹرس کے ایک ساتھی نے اس دعوے کا جواب دیا اور کہا کہ وزیر خارجہ نے ایسا کچھ  نہیں کہا ’جس کہ وجہ سے اس  قسم کا ردعمل‘ ظاہر کیا جائے۔

لیکن ولادی میر پوتن کے احکامات کے بعد اب کیا ہوسکتا ہے؟ ذیل میں اب تک کی وہ تمام معلومات ہیں جو آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔

ولادی میر پوتن نے جوہری ہتھیاروں کے متعلق کیا کہا؟

گذشتہ اتوار کو روسی ٹیلی وژن پر دکھائے گئے مناظر میں ولادی میر پوتن نے اپنے وزیر دفاع اور جنرل سٹاف کے سربراہ سے ملاقات میں انہیں ہدایت دی کہ جوہری ہتھیاروں کو ’جنگ کے لیے خصوصی نظام‘ پر تیار رکھیں۔

تھنک ٹینک کیتھم ہاؤس میں بین الاقوامی سلامتی پروگرام کی ڈائریکٹر پیٹریشیا لیوس نے اس کا مطلب نکالتے ہوئے پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا: ’ہمارے خیال میں دوران امن روس کے پاس چیک اینڈ بیلنس موجود ہیں تاکہ وہ جوہری ہتھیار لانچ نہ کر سکیں۔‘

’چنانچہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے صدر پوتن کو اس کی حیثیت امن سے جنگ میں تبدیل کرنی ہوگی، اس لیے انہوں نے اپنی افواج کو جنگ کے سپیشل موڈ میں ڈالا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم شاید اسے جنگی تیاری کہیں لیکن مختلف زبانوں اور مختلف مفہوم کی وجہ سے تشریح کرنا مشکل ہے۔‘

پیٹریشیا لیوس نے مزید کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے قانونی پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے تاکہ اگر وہ چاہیں تو لانچ کر سکیں۔‘

آر یو ایس آئی (رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پروفیسر میلکم چالمرز نے کہا کہ یہ الفاظ پہلے استعمال نہیں کیے گئے، لہذا ’پوری طرح واضح‘ نہیں کہ اس کا مطلب کیا تھا۔

انہوں نے پی اے کو بتایا: ’میں نے روسی جوہری افواج کے انداز میں تبدیلیوں کی کوئی خبر نہیں دیکھی۔ ظاہر ہے کہ مجھے کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس تک رسائی حاصل نہیں ہے لیکن میں نے اس طرح کی رپورٹس نہیں دیکھیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تو یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صدر اور جوہری افواج کے درمیان مخصوص اجازت نامے کے متعلق ہو یا یہ کچھ بھی نہ ہو۔ واضح بات یہ ہے کہ اس کو ہمیں سنانے اور اس یاد دہانی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ روس کے پاس جوہری طاقت ہے۔‘

برطانیہ کے وزیر دفاع بین ویلیس نے جوہری جنگ کا خوف کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ ان خدشات کو سمجھتے ہیں لیکن یہ جملے بازی ’بیانات کی جنگ‘ ہے۔

پیر کو انٹرویوز کے دوران انہوں نے سکائی نیوز کو بتایا کہ وہ اس بارے میں ’قیاس آرائی نہیں کریں گے‘ کہ ولادی میر پوتن مستقبل میں کیا کر سکتے ہیں۔

بعدازاں، انہوں نے بی بی سی بریک فاسٹ شو کو بتایا: ’جس چیز کو انہوں نے اپنے جملے میں جوہری افواج کے انداز میں تبدیلی کے طور پر بیان کیا ہے، ہم نے اسے ان کے جوہری انداز میں تبدیلی کے طور پر نہیں دیکھا اور نہ اس کی نشاندہی کر سکے ہیں۔‘

’یہ بنیادی طور پر ایسا ہے کہ ولادی میرپوتن لوگوں اور دنیا کو یاد دلائیں کہ وہ مزاحمت کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم اس میں مزید اضافہ نہیں کریں گے، ہم کسی غلط تخمینے کو پروان چڑھانے کےلیے کچھ نہیں کریں گے ، ہم اسے بہت بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

’لیکن فی الحال یہ بیان بازی کی جنگ ہے جسے صدر پوتن مسلط کر رہے ہیں اور ہمیں صرف یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم اسے درست انداز میں سنبھال سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دریں اثنا خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ٹام تگن ہاٹ نے کہا ہے کہ روس میدان جنگ کے جوہری ہتھیاروں کو محض ’ایک بڑا دھماکہ‘ سمجھتا ہے اور انہیں استعمال کرنے کا فوجی حکم دے سکتا ہے۔

بعض ماہرین نے کہا کہ یہ واضح نہیں پوتن جوہری حملہ کرسکتے ہیں یا نہیں جبکہ دیگر نے یہ کہتے ہوئے اس امکان کو رد کردیا کہ مشترکہ تباہی بہت زیادہ ہوگی۔

پیٹریشیا لیوس نے کہا: ’اب وہ جنگی صورت حال کی طرف بڑھ  گئے ہیں، وہ [جوہری حملہ] کر سکتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کریں گے بھی؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’یقیناً، وہ ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ روس طویل عرصے یہ سمجھ گیا ہے کہ جتنا روس مغربی جوہری ہتھیاروں سے خوفزدہ ہے، مغرب روسی جوہری ہتھیاروں سے اس کہیں زیادہ خوفزدہ ہے۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ سچ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مغربی نظریات کے تحت جوہری ہتھیاروں سے روایتی طاقت کے خلاف جوابی کارروائی کا امکان ہے، لیکن عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آخری حربہ ہوگا۔

پیٹریشیا لیوس نے کہا: ’میرے خیال میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ولادی میر پوتن بشمول [شمالی کوریا کے رہنما] کم جونگ ان اور [سابق امریکی صدر] ڈونلڈ ٹرمپ ایسی شخصیات ہیں جو کبھی بھی جوہری ہتھیار داغ سکتی ہیں۔ میں اسے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہیں چاہتی اور نہ اس میں کمی بیشی کروں گی۔‘

دریں اثنا پروفیسر چالمرز نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کا ’امکان نہیں‘ ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’چونکہ جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی استعمال سے ایک قسم کا پنڈورا باکس کھل جائے گا کہ ایک ملک کے استعمال کے بعد مزید جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں اضافے کا امکان بڑھ جائے گا، اس لیے جوہری ہتھیاروں والے دیگر ممالک پراستعمال کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہوگا۔ روسی اور مغرب اس بات کو سمجھتے ہیں ۔ لہذا یہ ایک تضاد ہے۔‘

جوہری حملے میں کیا ہوسکتا ہے؟

ماہرین نے کہا ہے کہ اگر روس نے نیٹو ملک پر حملہ کیا تو نیٹو کے دیگر ممالک کی جانب سے جوابی حملے کیے جا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں تنازع پیدا ہو سکتا ہے جس کے متعلق پروفیسر چالمرز نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ایسے ’احکامات آسکتے ہیں جن کی شدت دوسری عالمی جنگ سے بھی بدتر‘ ہو سکتی ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کس علاقے پر حملہ کیا گیا۔ جوہری ہتھیار لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا انحصار نشانہ بنائے گئے علاقے کی آبادی پر ہے۔

اگر اس کی بجائے کسی مخصوص مقام کو نشانہ بنایا جائے تو تابکاری کے زہر کے نتیجے میں بچ جانے والے افراد زخمی ہوجائیں گے۔

روس کے پاس کون سے جوہری ہتھیار ہیں؟

غیر منافع بخش تنظیم بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نے 1987 سے فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے سرکردہ ماہرین کے مرتب کردہ عالمی جوہری ہتھیاروں کی تفصیلات شائع کی ہیں۔

اس نے گذشتہ ہفتے روس کے جوہری ہتھیاروں پر مشتمل اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ذخیرہ تقریباً 4477 وارہیڈز پر مشتمل ہے، جن میں سے تقریباً 1588 سٹریٹجک وارہیڈز ہیں جنہیں بلیسٹک میزائلوں کے ذریعے بھاری بمباری والے اڈوں پر داغا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 1912 سٹریٹجک وارہیڈز کے ساتھ تقریباً اضافی 977 سٹریٹجک وارہیڈز ریزرو میں رکھے گئے ہیں۔

باقی دنیا کے پاس کیا ہے؟

فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے پاس تقریباً 225 جوہری وارہیڈز کا ذخیرہ ہے جبکہ امریکہ کے پاس 5428، فرانس کے پاس 290، پاکستان 165، چین 350، بھارت 160، اسرائیل 90 اور شمالی کوریا کے پاس 20 جوہری وارہیڈز کا ذخیرہ ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا