دلت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک 15 سالہ لڑکے کی سکول میں استاد کے ہاتھوں مبینہ پٹائی کے بعد ہلاکت کے نتیجے میں انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔
اتر پردیش کے ضلع اوریا کے ایک پرائیویٹ سکول کے طالب علم نکھت کمار کی موت مبینہ طور پر استاد کے ہاتھوں پٹائی کے 19 دن بعد ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق پٹائی کی وجہ کلاس میں غلط جواب دینا تھا۔
نکھت کے اہل خانہ کی جانب سے پولیس میں درج کرائی گئی شکایت کے مطابق، لڑکے کو دلت ہونے کی وجہ سے ذات پات پر مبنی گالیاں دی گئیں۔
دلت کا درجہ انڈین ہندو ذات پات کے نظام میں سب سے نچلا ہے، اسے رسمی طور پر ’اچھوت‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ سات ستمبر کو سوشل سائنس کے ٹیسٹ میں غلطی پر استاد نے لڑکے کو ڈنڈوں اور لاتوں سے اس وقت تک مارا جب تک وہ بےہوش نہیں ہو گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان واقعے کے بعد دو ہفتوں تک ہسپتال جاتا رہا لیکن اتوار کو حالت بگڑنے کے بعد انہیں ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب ان کی لاش اہل خانہ کے حوالے کی گئی تو احتجاج شروع ہوگیا۔
Police van torched in Auraiya of Central West Uttar Pradesh. This came in as a violent protest following death of a minor dalit boy who died after being allegedly thrashed by his upper class school teacher.
— Saurabh Sharma (@saurabhsherry) September 26, 2022
SP Charu Nigam yet to confirm, comment. pic.twitter.com/5PsXG1TOHw
اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں مشتعل مظاہرین نے آگ لگا دی اور پتھراؤ کیا اور پیر کی رات ہونے والے احتجاج میں کم از کم دو نجی اور دو پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کر دیں۔
مظاہرین نے لڑکے کی لاش اسی سکول کے باہر سڑک پر رکھ کر انصاف کی فراہمی کے نعرے لگائے، جس میں انہیں مبینہ طور پر پیٹا گیا تھا۔
لڑکے کے چچا رشی کمار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’استاد نے پہلے میرے بھتیجے کو بے رحمی سے پیٹا اور پھر دلت ہونے کی وجہ سے گالیاں دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’استاد کا تعلق اونچی ذات سے ہے، انہوں نے نکھت کا قتل کیا اور بعد میں جب ہم نے معاوضے کا مطالبہ کیا تو اس نے ذات پات پر مبنی گالیاں دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج انڈیا میں دلت برادری 20 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ بے شک 1955 میں ’اچھوت‘ کے تصور کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے ملازمتوں اور تعلیم میں مثبت امتیازی سلوک کے اقدامات متعارف کرائے، لیکن اس برادری کے لوگ پورے ملک میں امتیازی سلوک اور بدسلوکی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ استاد مفرور ہے اور اس پر شیڈول کاسٹ اینڈ شیڈول ٹرائب (مظالم کی روک تھام) ایکٹ کے ساتھ ساتھ دانستہ قتل، دانستہ چوٹ پہنچانے اور امن کی خلاف ورزی کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنے کے الزامات ہیں۔
ویب سائٹ انڈین ایکسپریس کے مطابق ضلع اوریا کے پولیس افسر مہندر پرتاپ سنگھ نے کہا کہ ’ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ واقعے سے قبل لڑکا گردے کی بیماری میں مبتلا تھا اور ہسپتال میں اس کا علاج جاری تھا۔‘
حکام لڑکے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ہسپتال سے میڈیکل ریکارڈ کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس کی موت کی وجہ کی تصدیق کی جا سکے۔
منگل کو مذکورہ نوجوان کے اہل خانہ اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لے گئے اور استاد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اسی ریاست کے ضلع لکھیم پور کھیری میں 15 ستمبر کو دو نابالغ دلت لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے واقعے نے ہلچل مچا دی تھی۔
دونوں بہنیں اجتماعی زیادتی کے بعد درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں اور پرتشدد احتجاج کے بعد چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، انڈیا میں دلتوں کے خلاف جرائم میں 9.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو 2019 میں 45،961 کیسز سے بڑھ کر 2020 میں 50،291 ہو گئے ہیں۔
© The Independent