لاہور میں نویں جماعت کا خراب رزلٹ: کیا کرونا کو الزام دینا ٹھیک؟

لاہور بورڈ کے ترجمان کے مطابق رواں برس بورڈ کے نتائج میں صرف 43.27 فیصد طلبہ پاس ہو سکے۔

اس تصویر میں لاہور کے ایک سکول میں طلبہ کرونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں(اے ایف پی)

حال ہی میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن لاہور نے نویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا جن کے مطابق صرف 43 فیصد طلبہ ہی امتحانات میں پاس ہو سکے۔

جس کے بعد تعلیمی حلقوں اور والدین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان نتائج کی وجہ وہ فیصلے ہیں جو کرونا کی وبا کے دنوں میں لیے گئے۔

لاہور بورڈ کے ترجمان قیصر ورک کے مطابق پنجاب کے نو بورڈز ہیں جن میں سے لاہور بورڈ کا اس برس کا رزلٹ صرف 43.27 فیصد ہی رہا جس کا مطلب ہے کہ 50 فیصد سے زائد بچے امتحان میں کامیابی حا صل نہیں کر پائے۔

قیصر کا کہنا ہے نتیجہ خراب آنے سے بورڈ کا کوئی تعلق نہیں انہوں نے تو وہی نتیجہ دیا جو بچوں پڑھا۔ نتیجے کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق بورڈ سے نہیں ہے یہ تو تعلیمی اداروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے کیا پڑہایا جس کے بعد نتیجہ یہ نکلا۔

ان کے مطابق ’گذشتہ چند سال کے دوران جب کووڈ بھی چل رہا تھا تب بھی تمام بورڈز کا رزلٹ ساٹھ فیصد سے کم نہیں آیا تھا۔‘

بورڈ کے اس نتیجے کے حوالے سے ہم نے صوبائی وزیر سکول ایجوکیشن مراد راس سے بھی بات کرنے کی کوشش کی مگر مصروفیت کے باعث وہ جواب نہیں دے پائے۔

نویں جماعت کے ان نتائج کے حوالے سے مخلتف آرا سامنے آرہی ہیں جسے انڈپینڈںٹ اردو اپنی اس سٹوری میں شامل کر رہا ہے۔

روبینہ عمران ایک والدہ بھی ہیں اور استانی بھی۔ بطور ایک والدہ ان کا خیال ہے کہ اس برے نتیجے کا ذمہ دار سوشل میڈیا ہے۔

ان کے مطابق ’بچے سکول اور گھر دونوں جگہوں پر قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔ ٹک ٹاک اور دیگر سماجی رابطوں کی سائٹس کے ذریعے بچے آسان راستے سے پیسہ کمانے کے طریقوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔

’میرے جیسے پرانے خیال کے والدین تو بچوں کو کچھ حد تک کنٹرول کررہے ہیں لیکن میرے مشاہدے کے مطابق بیش تر والدین بچوں پر اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں۔‘

 اپنے بیٹے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میرا اپنا بیٹا بہت اچھا ہے لیکن میں بے جا لاڈ پیار نہیں کرتی کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ وہ اچھا انسان بھی بنے اور پڑھائی میں بھی ٹھیک رہے۔‘

 روبینہ کہتی ہیں کہ ’رزلٹ اچھے نہ آنے کا پورا ملبہ اساتذہ پر نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ والدین کی ذمہ داری اساتذہ سے زیادہ بنتی ہے۔‘

کیا ان خراب نتائج کی وجہ سوشل میڈیا ہے؟

اس حوالے سے پنجاب ٹیچرز یونین پنجاب کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’نویں جماعت کے یہ وہ بچے ہیں جنہیں گذشتہ برس بورڈ نے کورونا وبا کے سبب کچھ مضامین کے امتحان لے کر یا بغیر کسی امتحان کے پاس کردیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’ان بچوں کے ذہن میں یہ خیال آگیا کہ انہیں آگے بھی اسی طرح پاس کر دیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو ایسے بچے ہوں گے لیکن میرے خیال میں وہ ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے جنہیں انٹر نیٹ اورسمارٹ فون تک رسائی ہے۔ آن لائن کام کرنے کے لیے بھی آپ کو سرمایہ چاہیے اس لیے ناقص نتیجہ کی یہ بڑی وجہ نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا لیاقت کہتے ہیں کہ کرونا وبا نے جہاں معیشیت کو نقصان پہنچایا وہیں تعلیم بھی متاثر ہوئی۔ ’بغیر امتحان یا چند مضامین کے امتحان کی بنیاد پر طلبہ کو پاس کرنا اسی قسم کے نتائج کا پیش خیمہ ہے اور اگلے تین برس تک امتحانی نتائج اسی قسم کے آتے رہیں گے۔‘

رانا لیاقت نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر نویں کے نتیجے کے بعد اساتذہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بچوں کا نتیجہ خراب ہوگیا۔ یہاں تک کہ حکومت بھی یہی سوچ رہی ہے۔

’کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اساتذہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ اور ڈیوٹیاں بھی دے رہے ہیں انہیں تو ڈینگی اور دیگرکلیریکل سرگرمیوں یا انتخابات کی ڈیوٹیوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تعلیمی رزلٹ امتحانی نظام یا ملکی حالات کی وجہ سے خراب ہو جائے تو سب کی انگلیاں اساتذہ کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔‘

رانا لیاقت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’گذشتہ چار برس میں ایک بھی استاد بھرتی نہیں کیا گیا ایک لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہیں جبکہ ہزاروں سکول بغیر کسی سربراہ کے چل رہے ہیں۔

’مزید یہ کہ 14 ہزار سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کو آٹھ سال گزرنے کے باوجود ریگولر نہیں کیا گیا جو بے چارے ان کلاسوں کو پڑھا رہے ہیں۔ مستقل ہونے کے انتظار میں اب بددلی کا شکار ہیں ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے ہیں۔ خراب رزلٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اساتذہ ذہنی طور پریشان ہیں۔‘

نویں کے نتائج کے حوالےسے آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا کہنا ہے: ’ہمارا پہلے دن سے یہی موقف ہے کہ وبا کے دوران ہماری حکومت نے تعلیم کے حوالے سے جو اقدامات کیے وہ انتہائی ناقص تھے اور اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’جو حالیہ نتائج آئے ہیں یہ 40 سے 43 فیصد کے درمیان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا۔

’ہم نے انہیں آن لائن کلاسسز جس کا انفراسٹکچر ہی موجود نہیں تھا میں ڈالا جس کا نتیجے میں بچوں کے اندر سے پڑھائی کے حوالے سے سنجیدگی ختم ہوئی۔ کلاس روم کا ماحول ختم ہوگیا۔‘

کاشف مرزا کایہ بھی دعویٰ تھا کہ بچوں کا منشیات کی جانب رحجان بڑہا یہاں تک کہ ڈارک ویب سائٹس کی طرف بھی ان کی رسائی ہوئی اور اس سب کا نتیجہ ہم آنے والے وقتوں میں دیکھیں گے۔

کاشف مرزا نے بتایا کہ پاکستان وبا کے دو برسوں کے دوران 34 ہفتوں کے اندر تعلیمی اداروں کو سات مختلف اوقات میں بند کیا گیا اور سب سے تعلیمی وقفہ دنیا میں پاکستان کے اندر آیا جو ایک المیہ ثابت ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل