بلوچستان: ناکارہ ٹائروں سے ’کارآمد‘ چیزیں بنانے والے آرٹسٹ

صدیق اللہ کے مطابق ان ٹائروں کو احتجاج میں جلانے سے بہتر ہے ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔

عام طور پر ناکارہ اور پرانے ٹائروں کو احتجاج، مظاہروں اور کارخانوں میں جلتے ہی دیکھا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی ان ٹائروں کے ناکارہ ہونے کے بعد ان سے کوئی اور کام لینے کا سوچا ہے؟

بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے کلی سیبزی سے تعلق رکھنے والے دکاندار صدیق اللہ ترین نے نہ صرف ایسا سوچا بلکہ کیا بھی ہے۔

یہ ’ماحول دوست‘ دکاندار ان ٹائروں سے مختلف انوکھے مجسمے بناتے ہیں۔

تین چار سال پہلے ان کے گھر میں جانوروں کے لیے ٹب کی کمی تھی اور انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ناکارہ ٹائر سے ایک ٹب بنایا اور پھر آہستہ آہستہ مختلف چیزیں بنانی شروع کردیں۔

اس بارے میں صدیق اللہ کہتے ہیں کہ تین سال پہلے انہیں علم ہوا کہ پرانے ٹائروں کو پھینکنے اور جلانے سے ماحول خراب ہوتا ہے اور انسانوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے بھائی نے کہا کہ ان ٹائروں کو پھینکے یا جلانے سے بہتر ہے کہ کیوں نہ ان ناکارہ ٹائروں کو کارآمد بنایا جائے۔

اس کے بعد صدیق اللہ نے باقاعدہ اس کام پر محنت شروع کی اور اب تک کئی جانوروں کے مجسمے، بچوں کے سوئمنگ پول، بچوں کے کھلونے اور گھروں میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے فانوس، ایئر کولر، گملے، واش بیسن، موٹر سائیکل اور کرسیاں وغیرہ بنا چکے ہیں۔

 صدیق اللہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے کئی ممالک کے ٹائروں کو خرید کر کوئٹہ لاتے ہیں اور دکان سے منسلک گودام میں رکھتے ہیں، جہاں وہ بعد میں ان سے مختلف اشیا بناتے ہیں۔

انہوں نے ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا ہے جہاں مختلف قسم کے مجسمے رکھے گئے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے اکثر لوگ آتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدیق اللہ کا کہنا ہے کہ ’دوسروں کی منت کرنے سے بہتر ہے کہ بلوچستان کے نوجوان خود کوئی ایسا کام کرنے کی کوشش کریں جس سے انہیں معاشرے میں ایک مثبت اقدام سمجھا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں اس دکان میں نئے اور پرانے ٹائروں کا کاروبار بھی کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ نئے ٹائروں کو آس پاس کے علاقوں کے علاوہ دوسرے ممالک سے منگواتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے اس فن کی مدد سے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پرانے اور ناکارہ ٹائروں کو جلانے کے بجائے انہیں ماحول دوست بنایا جائے۔

صدیق اللہ کے مطابق ان ٹائروں کو احتجاج میں جلانے سے بہتر ہے کہ انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ’اگر لوگ یہ سوچ لیں کہ اس سے ہمارا ہی نقصان ہے تو دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں رہے گی۔‘

صدیق اللہ کے مطابق: ’میرے خیال سے یہ سو فیصد ماحول دوست ہوسکتا ہے۔ ٹائر کا جو دھواں ہے اور آگ ہے، یہ باقی چیزوں سے بہت مختلف اور تیز ہے، یعنی انسان اس کے دھویں اور آگ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ