معروف اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ کسی اور زبان میں بنتی کیونکہ مزہ ہی نہ آتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ماہرہ خان نے فلم میں اپنے کام اور تجربات کے حوالے سے بات چیت کی۔
ماہرہ سے جب سوال کیا گیا کہ ان کے نام میں خان لگتا ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے پشتو کی جگہ پنجابی فلم میں کام کیا، جس پر اداکارہ نے کہا کہ یہ اعتراض انہوں نے پہلی بار سنا ہے کیونکہ ’فلم کا نام مولا جٹ ہے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ کسی اور زبان میں بنتی۔ مزہ ہی نہیں آتا۔‘
ماہرہ نے بتایا: ’میں جب خود مکالمے پڑھتی تھی تو کہتی تھی کہ اردو یا کسی اور زبان میں اس کا مزہ ہی چھن جاتا، لیکن انشاللہ پشتو فلم بھی بنائیں گے اور ہم ہی بنائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پنجابی انہیں بالکل نہیں آتی تھی اور اب بھی نہیں آتی، لیکن اب کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔
بقول ماہرہ: ’یہ فلم لاہور میں بن رہی تھی تو میں کہیں کبھی کچھ خریدنے جاتی تھی تو کوشش کرتی تھی کہ پنجابی میں بات کروں۔
’شروع میں تو میری پنجابی کا مذاق اڑتا تھا کیونکہ میں اینوں تینوں کرتی تھی، مگر پھر آخر کار، میں نے الفاظ کے معنی سمجھے، ان مکالموں کا مقصد سمجھا، پھر میری سمجھ میں آگیا کیونکہ مجھ سے رٹّا نہیں لگایا جاتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرہ خان نے بتایا کہ پنجابی بولنے میں حمزہ علی عباسی نے ان کی بہت مدد کی تھی، وہ سیٹ پر ہر روز ان کی مدد کے لیے موجود ہوتے تھے، چاہے ان کا سین ہوتا تھا یا نہیں۔
اس کے علاوہ مصنف ناصر ادیب اور ہدایت کار بلال لاشاری نے بھی بہت مدد کی۔
مکھو جٹی کے کردار کے بارے میں ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ یہ لڑکی بہت ’بن داس‘ ہے، کسی سے ڈرتی نہیں ہے، اسے کسی کام سے جھجک بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ’اسے مولا سے اتنا پیار ہے، اتنا زیادہ عشق ہے کہ موت کے کنویں میں جہاں اتنا سارے لوگ ہیں وہاں وہ اکیلے مولا جٹ کے لیے تالیاں بجا رہی ہوتی ہے۔‘
ماہرہ خان نے کہا کہ معلوم نہیں وہ کبھی دوبارہ پنجابی فلم کرسکیں، یہ وہ فلم تھی جس میں انہیں زبان کا بھی مسئلہ تھا، اس لیے انہیں مکھو کا کرداربہت اچھا لگا۔
ساتھ ہی ماہرہ نے انکشاف کیا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ پرانی مولا جٹ نہ دیکھیں، لیکن انہوں نے اس کے کچھ کچھ ٹکڑے دیکھے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے پنجابی فلم نہیں دیکھی تھی، پنجابی زبان اور کلچر سے واقفیت نہیں تھی اس لیے دیکھنا ضروری تھا۔
’میں نے بہت سے پنجابی گانے دیکھے، بہت سی فلموں کے سین دیکھے، پھر جب سیٹ پر پہلا سین کیا تو ایسا لگا جیسے ماہرہ اندر سے نکل گئی، میرے ہر کردار میں ماہرہ ہوتی ہے مگر مکھو میں آپ نہیں دیکھیں گے۔‘
فواد خان کے ساتھ ’ہمسفر‘ کے بعد کام نہ کرنے کی شکایت پر ان کا کہنا تھا کہ ’دیر آئے درست آئے اور کافی وقت ہوگیا ہے مگر ابھی مولا جٹ ہے، اس کے بعد ’نیلوفر‘ بھی آئے گی تو یہ شکایت دور ہوجائے گی۔‘
کینیڈا میں ہونے والے ہم ٹی وی ایوارڈز میں انہوں ’ہم کہاں کہ سچے تھے‘ میں نامزد ہو کر ایوارڈ نہ ملنے پر کہا کہ ’مایوسی نہیں ہوئی، کیونکہ ایوارڈ سے کیا فرق پڑتا ہے، جب نام کا اعلان ہوتا تھا اور پورا سٹیڈیم نام لے کر پکارتا تھا تو وہیں دل خوش ہوجاتا تھا اور شکر ادا کرتا تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جب دوسرے لوگ ایوارڈ جیتتے ہیں تو خوش ہونا چاہیے کیونکہ جب میں جیتتی تھی تو میں چاہتی تھی کہ دوسرے بھی خوش ہوں۔‘
آخر میں انہوں نے کہا کہ ڈرامے کے مرکزی گانے (او ایس ٹی) کو ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔