فواد خان کا تعارف کروانے کے لیے حقیقت میں زیادہ الفاظ کی ضرورت ہی نہیں، ان کا نام ہی کافی ہے، جنہوں نے پاکستان کے علاوہ انڈیا اور حتیٰ کہ ہالی وڈ میں بھی کام کیا ہے۔
اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں فواد خان کی پہلی پاکستانی پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ریلیز ہو رہی ہے۔
یہ فلم اب تک کی سب سے بڑی پاکستانی فلم ہے جسے کلاسیک پنجابی فلم مولا جٹ کا ری بوٹ ورژن بھی کہا جا رہا ہے۔
اپنے طویل کیریئر میں یہ فواد خان کی پہلی پاکستانی فلم ہے جو وہ بطور ہیرو کر رہے ہیں۔
فلم مولا جٹ کے بارے میں بات کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے فواد خان سے خصوصی ملاقات کی اور پہلا سوال یہی پوچھا کہ آخر انہوں نے پاکستانی فلم کرنے میں 15 سال کیوں لگا دیے؟
اس پر فواد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’دیر آئے درست آئے (دیر آید درست آید)، اگرچہ یہ بدقسمتی ہے کہ اتنا عرصہ گزر گیا، اس درمیان میں بہت کچھ ہوا بھی، اگرچہ یہ نروس وقت ہے، مگر اب ایک کے بعد ایک کام نظر آئے گا۔‘
فواد خان نے تسلیم کیا کہ وہ اپنے کردار کے معاملے میں کافی محتاط ہیں جبکہ وہ کچھ سست بھی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک استاد کا بھی حوالے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے وہ کم کام کرتے ہیں۔
فواد خان نے بتایا کہ کئی مرتبہ ان کی کام کے لیے بہت سے پروڈیوسرز سے بات بھی ہوئی، مگر وہ کسی نہ کسی وجہ سے کام شروع نہ کر سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ چونکہ انہیں ذیابیطس بھی ہے اس لیے وہ بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں، اگر وہ زیادہ کام کرلیں تو اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔
مولا جٹ کے کردار کے لیے وزن میں اضافے پر ان کا کہنا تھا کہ وزن چڑھانے سے زیادہ اتارنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
فواد خان نے بتایا کہ آنے والی فلم مولا جٹ پاکستانی سینیما کا ایک بہت ہی مشکل اور بلند قامت کام ہے، اس لیے جب وہ ختم بھی ہوگیا تو پھر بھی وزن اتارنے میں وقت لگ گیا۔
اس موقعے پر انہوں نے ہالی وڈ کے ایک اداکار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس سے گزر کر مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔ ’وزن میں اضافہ اور پھر کمی بہت مشکل اور کٹھن کام ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔‘
مولا جٹ کے لیے پنجابی بولنے پر فواد کا کہنا تھا کہ اس کا سہرا اس فلم کے مصنف ناصر ادیب اور پروڈکشن ٹیم کو جاتا ہے۔ فواد خان کے مطابق وہ پنجابی میں بہت کمزور تھے، اس لیے یہ ان کے لیے ایک اور چیلنج تھا، ’پنجابی کے کچھ لفظ ایک طرح سے بولیں، پھر انہیں کھینچ کر بولیں تو اس کا مزا ہی بدل جاتا ہے‘۔
فواد خان نے کہا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے، لاہور میں زندگی گزاری مگر نہ تو گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی اور نہ ہی سکول میں، اس لیے انہیں پنجابی بولنے میں مشکلات تھیں۔
فواد خان نے بتایا کہ ’جب فلم کے لیے پنجابی بولنے کا وقت آیا تو ان کی ٹانگیں کانپ گئیں کیونکہ ان کے سامنے پنجابی کے ماہر حمزہ علی عباسی تھے، جو نوری نت کا کردار کر رہے تھے۔ اب سین تو دو اداکاروں سے بنتا ہے، اگر ایک کمزور پڑ جائے تو سین خراب ہوجاتا ہے، یہ سب چیلنجز تھے جنہیں قبول کرکے پورا کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پرانی مولا جٹ تھوڑی سی دیکھی ہے، مگر چونکہ انہیں پنجابی ٹھیک طرح نہیں آتی، اس لیے اکثر بات ان کے سر پر سے گزر جاتی ہے، اس لیے پوری نہیں دیکھی بلکہ ان کے کچھ حصے دیکھے ہیں۔
فواد خان نے گنڈاسے کے بارے میں کہا کہ اسے چلانا ایک الگ ہی فن ہے۔ ’یہ ایک طرح کا رقص ہے، اس کے لیے ایکشن ٹیم بیرونِ ملک سے آئی ہوئی تھی، اب اس ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے پنجابی کلچر کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے اور اسے ماڈرن بھی رکھنا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جو گنڈاسہ تھا وہ چھ سے سات کلو کا تھا کیونکہ پلاسٹک میں وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا، اس لیے وزنی گنڈاسہ لیا، اسے گھمانا، چلانا، وار کرنا، یہ سب بہت مشکل تھا۔ ’اب فلم دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ کیسا چلایا گنڈاسہ‘۔
فواد خان نے تسلیم کیا کہ ماہرہ خان کے ساتھ کام کرنا اس لحاظ سے بہت اچھا ہے کہ ایک پرانے دوست کے ساتھ کام کیا۔ ’کچھ نروس ہیں کہ جتنا اچھا کام پہلے کیا اب بھی لوگ پسند کریں، توقعات ہیں، امید ہے کہ لوگوں کی توقعات پر پورا اتریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فواد خان نے انڈیا سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ فنکار جو کر سکتے تھے وہ انہوں نے کیا ہے، بھرپور انداز سے کیا ہے۔ ’اب دنیا میں سیاسی تقسیم بہت زیادہ آگئی ہے، تنگ نظری بڑھ گئی ہے، فنکار سے زیادہ اہم اس معاملے میں نیوز میڈیا کی ہوتی ہے، یہ ذمےداری ان کی زیادہ ہوتی ہے، جس کے بعد فنکار آتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’جب ہم نے ہم سفر اور زندگی گلزار ہے کیا تھا تو انڈیا میں لوگ کہتے تھے کہ ہم نے ایسا مواد نہیں دیکھا، کراچی ایسا ہے معلوم نہیں تھا۔ تو پہل کہیں اور سے ہوگی پھر فن کار اپنا کام کردیں گے۔‘
فواد خان نے انکشاف کیا کہ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ فلم ’خوبصورت‘ کے زمانے میں سونم کپور نے بنایا تھا، جبکہ کپور اینڈ سنز کے زمانے میں سدھارتھ ملہوترا نے انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا تھا۔
سوشل میڈیا سے دوری کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے بارے میں وہ زیادہ جانتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ چند حروف کی قید کی وجہ سے بات مکمل ہو نہیں سکتی، لوگوں کو بات سمجھانے کے لیے کچھ جگہ اور وقت چاہیے ہوتا ہے۔
بقول فواد خان: ’انٹرنیٹ کے فائدے اور نقصان دونوں ہیں مگر سوشل میڈیا کے نقصانات زیادہ محسوس کیے ہیں۔‘