ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کی ضمانت منظور

اسلام آباد ہائی کورٹ کی حفاظتی ضمانت کے بعد عمران خان اب ایف آئی اے کے مقدمے میں خصوصی عدالت سے عبوری ضمانت کے لیے رجوع کریں گے۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان کی 12 اکتوبر، 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ آمد پر صحافیوں سے گفتگو (انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی پانچ ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 18 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں  گرفتاری سے بچنے کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب عمران خان متعلقہ عدالت سے عبوری ضمانت کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔

درخواست کی سماعت بدھ کی صبح شروع ہوئی تو عمران خان کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ان کی حاضری کا حکم دیتے ہوئے کاروائی کچھ دیر کے لیے ملتوہ کر دی۔

بعد ازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کی ایف آئی آر سے متعلق تو خصوصی عدالت کیسز سنتی ہے انہوں نے کیس کیوں نہیں سنے؟ جب ایف آئی اے کے شیڈول میں موجود ہے تو ان کو ضمانت کی درخواست سننا چاہیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے عدالت کو بتایا کہ حفاظتی ضمانت اس صورت میں سنی جا سکتی ہے جب معاملہ دوسرے صوبے کا ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں خصوصی عدالت کو ضمانت سننی چاہیئے۔ اگر کوئی ایشو ہے تو ہم اس وقت تک حفاظتی ضمانت منظور کر لیتے ہیں۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے کہا کہ انہیں بھی حیرت ہے کہ سپیشل کورٹ یہ مقدمہ کیوں نہیں سن رہی؟ 

چیف جسٹس نے کہا: ’ہم اس کیس کو زیر سماعت رکھتے ہیں اور حفاظتی ضمانت دیتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ حل نہیں ہوتا تو ہم آپ کی درخواست کو دوبارہ سنیں گے۔‘

مقدمے کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کمرہ عدالت میں ان کے وکیل کے ہمراہ روسڑم پہ خاموش کھڑے رہے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ دو دیگر مقدمات بھی ہیں جن میں حفاظتی ضمانت درکار ہے، لہذا منگل تک حفاظتی ضمانت دی جائے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کیس کے میرٹس پر بات شروع کی تو چیف جسٹس نے کہا آپ تو مقدمہ اخراج چاہ رہے ہیں۔

اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کی خواہش تو یہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے آپ کے پاس قانونی راستہ موجود ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی حفاظتی ضمانت کے بعد عمران خان اب ایف آئی اے کے مقدمے میں خصوصی عدالت سے عبوری ضمانت کے لیے رجوع کریں گے۔

عمران خان جیل جانے کے لیے تیار

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی عدالت میں صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران سوال ہوا کہ اگر ضمانت نہ ہوئی تو کیا ہو گا؟ عمران خان نے کہا کہ ضمانت نہ ہوئی تو پھر جیل جاؤں گا اور کیا؟ میں نے جیل کی بھی تیاری کر رکھی ہے۔

انہوں نے آڈیو لیکس کے معاملے پر کہا کہ ہر وزیراعظم کی سرویلنس ہوتی ہے، ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں، مگر اس کو ریلیز کیا جا رہا ہے، جو نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسیوں کا یہ کام نہیں کہ فون ٹیپ کر کے اسے ریلیز کریں۔ ’ایجنسیوں کا کام پروٹیکٹ کرنا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر کس پہ شک ہے تو تحقیقات میں سب سامنے آ جائے گا، ہم اس کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بیان پر انہوں نے کہا کہ انہوں (صدر نے) اپنے بیان کی وضاحت کر دی ہے۔

سوات میں موجودہ بد امنی کے واقعات پر انہوں نے کہا کہ وہاں دہشت گردی کے معاملات کا صوبائی حکومت سے تعلق نہیں ہے، صوبائی حکومت تو کب سے بتا رہی ہے، یہ سرحد سیکیورٹی کا معاملہ ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ اس پر عمران خان نے جواب دیا: 'ہو سکتا ہے، لیکن میرا اسٹیمنا شریفوں سے زیادہ ہے۔'

عمران خان نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کی لیگل فنڈنگ ہے اور وہ ہے تحریک انصاف، دیگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ دو نمبر ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا چیف الیکشن کمشنر دیگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سامنے نہیں لا رہے۔ ’ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے سب کی فنڈ ریزنگ کا کیس اکھٹا سنا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر اِن کے گھر کا آدمی ہے، متعصب آدمی ہے، اگر الیکشن کمشنر دیگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سامنے لے آئے تو معلوم ہو جائے گا کہ کس کی فنڈنگ لیگل ہے۔‘

عمران خان کی درخواست کیا تھی؟

عمران خان کی درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ عدالت عالیہ حفاظتی ضمانت منظور کرے تاکہ متعلقہ عدالت میں پیش ہوا جا سکے۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست پر تین اعتراضات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کروایا، ایف آئی آر کی غیر مصدقہ نقل لگائی گئی ہے، اور خصوصی عدالت میں جانے سے پہلے ہائی کورٹ سے کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ 

اعتراضات کے ساتھ سماعت اسی دن چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں مقرر کر دی گئی۔

ابتدائی سماعت میں کیا ہوا؟

بدھ کے روز فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج ایف آئی اے کیس میں عمران خان کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت سے کہا کہ ان کے موکل کے دو شریک ملزمان نے ضمانت کے لیے بینکنگ کورٹ سے رجوع کیا ہے، اور بینکنگ کورٹ اور سپیشل جج سینٹرل دونوں عدالتوں نے سننے سے معذرت کر دی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کون سی عدالت میں جانا چاہیئے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ’ممنوعہ فنڈنگ کیس سپیشل جج سینٹرل کی عدالت جانا چاہیئے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ عمران خان کہاں ہیں ؟ پیش کیوں نہیں ہوئے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواباً کہا کہ عدالت حکم کرے تو عمران خان فوری عدالت پیش ہوجائیں گے۔ بنی گالہ میں پولیس نے عمران خان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے درخواست گزار پیش نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار تین بجے تک اس عدالت میں پیش ہوجائیں۔ وکیل نے کہا کہ تین بجے دیر ہو جائے گی ابھی آدھے گھنٹے میں آجاتے ہیں۔

عدالت نے انتظامیہ کو عمران خان کو ہراساں کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پیش ہونے تک عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔

ایف آئی اے نے عمران خان کے خلاف کیا مقدمہ درج کیا؟

چھ اکتوبر کو ایف آئی اے نے عمران خان سمیت دس افراد کے خلاف مقدمے کا اندراج کیا تھا۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق عمران خان کے خلاف مقدمہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں ابراج گروپ کے اکاؤنٹ سے 21 لاکھ ڈالر کی رقم کی منتقلی کا ذکر ہے اور مقدمے میں سردار اظہر طارق اور سیف اللہ خان نیازی اور عامر کیانی بھی نامزد ہیں۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ابراج گروپ نے تحریک انصاف کے پیسے اسلام آباد کے جناح ایونیو پر واقع ایک بینک کی برانچ میں موجود ایک اکاؤنٹ میں بھیجے تھے۔ 

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی کا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، تاہم عارف نقوی کا الیکشن کمیشن میں جمع کرایا گیا بیان حلفی جھوٹا اورجعلی ہے، لہذا ملزمان نے فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کی، اورنجی بینک اکاؤنٹ کے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست