ملک میں جاری ’فسادات‘ اپنے ’آخری دنوں‘ میں ہیں: ایرانی وزیر

سڑکوں پر ہونے والے تشدد کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر مظاہرین شامل تھے تاہم سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے جب کہ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد شروع ہونے والے ’فسادات‘ اپنے ’آخری دنوں‘ میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ ہفتے کے روز بھی ایران کی یونیورسٹیوں میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 22  سالہ امینی کی 16 ستمبر کو خواتین کے لیے ملک میں لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے چھٹے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں۔

 سڑکوں پر ہونے والے تشدد کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر مظاہرین شامل تھے تاہم سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے جب کہ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ایران کے نائب وزیر داخلہ ماجد میر احمدی کا ہفتے کو کا کہنا تھا کہ ’کچھ یونیورسٹیوں میں مختلف اجتماعات ہوتے ہیں، جو ہر روز کم ہوتے جا رہے ہیں، اور ہنگامے اپنے آخری ایام سے گزر رہے ہیں۔ صوبوں میں صورت حال ٹھیک ہے اور وہ ہنگامے نہیں ہو رہے جو شہری علاقوں میں بدامنی کا سبب بنے۔‘

میراحمدی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان میں حالات اب بھی خراب ہیں لیکن انہوں نے الزام لگایا کہ وہاں تازہ تشدد کی وجہ مقامی سنی مسلم عالم کے جمعے کا ’اشتعال انگیز‘ خطبہ تھا۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے صوبے کے دارالحکومت کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’زاہدان کا مسئلہ مختلف ہے۔‘

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق میر احمدی کا کہنا تھا کہ ’کل (جمعے کو) مولوی عبدالحمید کے خطاب اشتعال انگیز تھے۔ 150 شرپسندوں نے سرکاری املاک اور دکانوں پر حملے کیے۔ اگر خطبات میں اشتعال انگیز جملے نہ ہوتے تو ہمیں زاہدان میں امن دکھائی دیتا۔‘

زاہدان کی مکی مسجد جہاں عبدالحمید نماز پڑھاتے ہیں 30 ستمبر کو شروع ہونے والی بدامنی کا مرکز رہا ہے۔ تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جن میں پاسداران انقلاب کے ارکان بھی شامل  ہیں۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے نے تھانوں پر ’انتہا پسندوں‘ کے حملوں کو بدامنی قرار دیا۔ لیکن عبدالحمید کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے مسجد کے اردگرد موجود لوگوں پو گولی چلائی جب کہ کم عمر لڑکی کے مقامی پولیس کمانڈر کے ہاتھوں مبینہ ریپ پر لوگ مشتعل تھے۔

عبدالحمید کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے جمعے کو کہا کہ جو کچھ زاہدان میں ہوا اس کے ذمہ دار ملک چلانے والے حکام ہیں۔

 دوسری جانب ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کا کہنا ہے کہ جمعے کی نماز نے بعد ’فسادی اور لوٹ مار کرنے والے‘ مسجد کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے نعرے بازی کی اور دکانوں، کاروں اور بینکوں پر پتھراؤ کیا۔ صوبائی پولیس کے سربراہ احمد طاہری نے کہا ہے کہ 57 فسادیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جس کے بعد ایران کے صدر ابراہیم ریئسی نے تشدد کے واقعات کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

غربت زدہ سیستان بلوچستان طویل عرصے سے منشیات کی سمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ساتھ ساتھ بلوچ اقلیت اور انتہا پسند گروپوں کے باغیوں کے ساتھ جھڑپوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا