ذہنی بیماریاں: وقت آ گیا ہے کہ مغالطے دور کیے جائیں

کیا تیز بخار میں مبتلا کسی شخص کو کبھی یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ قوت ارادی سے کام لے، اس کا بخار خود ہی اتر جائے گا؟

افغانستان میں ذہنی امراض کے لیے ایک  خواتین  کا ہسپتال (فائل، روئٹرز)

کیا تیز بخار میں مبتلا کسی شخص کو کبھی یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ قوت ارادی سے کام لے، اس کا بخار خود ہی اتر جائے گا؟

یا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جگر یا دل کے مریض کو ساری دوائیں چھوڑ کر صحت یابی کے لیے صرف خدا کا ذکر کرنے کی ہدایت کی گئی ہو؟ یا کبھی کسی نے یہ ہی دعویٰ کیا ہو کہ صرف سوچ کو مثبت کر لینے سے ہی ناک کان گلے اور پیٹ کے تمام امراض فوراً ٹھیک ہو جاتے ہیں؟

یقیناً نہیں۔ ان امراض کے علاج کے لیے کبھی بھی ایسے حل تجویز نہیں کیے جاتے۔ 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر معمولی سے معمولی جسمانی مرض کے لیے بھی دوا کا استعمال یا ماہر طبیب سے رجوع ضروری سمجھا جاتا ہے تو پھر بیجا تفکر، اداسی، مایوسی اور گھبراہٹ جیسی تکلیف دہ ذہنی بیماریوں کے لیے ہی ایسے نسخے کیوں تجویز کیے جاتے ہیں؟ 

اس بات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی تکالیف کو سرے سے امراض سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اینگزائٹی (ذہنی دباؤ) اور ڈپریشن (بلاوجہ افسردگی) جیسے عام نفسیاتی امراض خدا پر یقین کی کمی اور وہم پر مبنی رویے قرار پاتے ہیں جبکہ شیزوفرینیا اور ہسٹیریا جیسے زیادہ پیچیدہ نفسیاتی عوارض کو جادو ٹونے اور جن بھوتوں کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔

نفسیاتی پیچیدگیوں کی علامات دراصل جسمانی اعضا اور ان کی کارکردگی کی بجائے زیادہ تر مریض کی سوچ، احساسات اور رویوں میں ظاہر ہوتی ہیں، لہٰذا ان کے بارے میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہونا کچھ اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ تاہم ذہنی امراض کے بارے میں یہ عام مغالطے ان مسائل میں مبتلا افراد پر بڑا ظلم ڈھاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جدید میڈیکل سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دماغ میں موجود اعصابی خلیے سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادے بناتے ہیں جن کی متوازن مقدار انسان میں اطمینان، خوشی، تحریک اور جوش جیسے جذبات کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف عوامل کے باعث اگر ان مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو انسان بے چینی، اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور انہی کیفیات کو طبی زبان میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کہا جاتا ہے۔ 

سجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات روز مرہ زندگی میں تشویش، غم یا خوف کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کے باوجود ان رطوبتوں میں عدم توازن کے سبب بھی انسان ان سب کیفیات میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ 

ایسے موقعوں پر ماہر نفسیات سے کونسلنگ، ورزش، طرز زندگی میں تبدیلی اور سوچ کو مثبت رکھنے کی عملی مشقوں سے انسان پھر سے ہشاش بشاش ہو جاتا ہے۔ اگر ان کوششوں سے افاقہ نہ ہو تو کسی ماہر ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کے استعمال سے بھی عصبی کیمیائی مادوں کی مقدار میں توازن پیدا ہو جاتا ہے اور  مریض چند ہفتوں کے اندر اندر بہتر محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ 

اتنے سادہ سے مسئلے کو لیکن ہمارے یہاں اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص کی زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اینٹی اینگزائٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو “نشے کا عادی بنانے والی ادویات” قرار دے کر ان سے ہر صورت دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور مریض کو منفی سوچوں سے باہر نکالنے کے نام پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 

’تمھیں اب اور کیا چاہیے زندگی میں۔ خدا کا دیا سب کچھ ہے بے وجہ پریشان رہ کر کیوں ناشکری کرتے ہو؟‘ 

’آپ بےچین اس لیے ہیں کیونکہ آپ خدا سے دور ہو چکے ہیں۔‘ 

’مادہ پرستی دل کا سکون چھین لیتی ہے، قناعت اختیار کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ 

’اٹھو مرد بنو! یہ کیا بزدلوں کی طرح کمرے میں دبک کر بیٹھے ہو۔‘ 

نمونے کے یہ وہ چند جملے ہیں جو تواتر سے متاثرہ شخص کی سماعتوں پر برسائے جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس کیے بغیر کہ جیسے خون میں شکر کی مقدار معمول سے بڑھ جائے تو اسے شوگر کا مرض ہو جاتا ہے، ویسے ہی دماغ میں مخصوص کیمیکل بڑھ جانے سے ذہنی بیماریاں ہو سکتی ہیں جن میں مبتلا ہونا یا ان سے صحت یاب ہونا مریض کی اپنی مرضی اور مزاج پر منحصر نہیں ہوتا۔

جہاں تک بات ہے نفسیاتی مسائل کے حل اور عبادات کے باہمی تعلق کی، تو خالق کی طرف جھکاؤ اور اس کا ذکر بلاشبہ دلوں کو اطمینان بخشتا ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بیماری کا دوا سے علاج کرنے کی تعلیم مذہب بھی دیتا ہے اور یہی انبیا کا طریقہ رہا ہے۔ 

ذہنی دباؤ، تفکر، اداسی اور معمولات زندگی میں عدم دلچسپی بہت نارمل انسانی رویے ہیں۔ بلکہ سٹریس اور اینگزائٹی جیسی کیفیات انسان کو کسی بھی خطرے کی صورتحال کا سامنا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق اگر ان علامات کا دورانیہ طویل جائے اور شدت اتنی بڑھ جائے کہ باہمی تعلقات اور روزمرہ معمولات متاثر ہونے لگ جائیں تو پھر انہیں ایک بیماری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

عالمی سطح پر طب کا شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے۔ بحیثیت قوم میڈیکل سائنس کی اس ترقی میں تو ہم نے آج تک دو کوڑی کا کردار بھی ادا نہیں کیا۔

لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ دوسروں کی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ذہنی صحت کےبارے میں اپنے مغالطوں کو ہی درست کر لیں۔ شاید اس سے نفسیاتی الجھنوں کے شکار حساس لوگوں کی زندگیوں میں کچھ آسانی پیدا ہو جائے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی صحت