برطانیہ: پاکستانی خاتون نے مذہبی آزادی پر فن پاروں کا مقابلہ جیت لیا

الماس خانم نے بتایا: ’میرے لیے فخر کی بات ہے کہ پوری دنیا میں مذہبی رواداری اور آزادی کے موضوع پر میرا فن پارہ پسند کیا گیا اور انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔‘

خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ کی تحصیل درگئی سے تعلق رکھنے والی الماس خانم نے برطانیہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے منعقدہ ’مذہبی رواداری اور آزادی‘ کے موضوع پر عالمی مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

یہ مقابلے برطانیہ کی بل ویدر نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے منعقد کیے گیے تھے، جن میں مختلف موضوعات پر کئی ممالک کے فنکاروں سے اپنے فن پارے جمع کروانے کو کہا گیا تھا۔

اسی سلسلے میں پاکستانی آرٹسٹ الماس خانم نے بھی اپنا بنایا ہوا ایک فن پارہ مقابلے کے لیے بھیجا تھا۔ ان کے اس فن پارے نے ’مذہبی رواداری‘ کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

الماس خانم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے لیے فخر کی بات ہے کہ پوری دنیا میں مذہبی رواداری اور آزادی کے موضوع پر میرا فن پارہ پسند کیا گیا اور انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔

’آرٹ سے میرا گہرا تعلق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خاندان میں زیادہ تر افراد آرٹسٹ ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’آرٹ میں، میں نے نئی صنف بھی متعارف کی ہے اور میں سوئی، دھاگے کے ذریعے چھنی پر فن پارے بناتی ہوں، جس کو زیادہ تر لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک انوکھا آرٹ ہے۔‘

اس مقابلے میں ایوارڈ کی تقریب برطانوی پارلیمان میں منعقد کی گئی اور الماس خانم کو تقریب میں مدعو کیا گیا تھا تاہم وہ جا نہیں سکیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے برطانیہ کے ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے مجھے ویزہ جاری نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کر سکی۔‘

تاہم الماس کے مطابق اس تقریب میں انہوں نے ورچوئل شرکت ضرور کی اور تقریب سے خطاب بھی کیا۔

’میرا ایوارڈ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی اور ان کی اہلیہ تورپکئی نے وصول کیا، جو میرے لیے فخر کی بات ہے۔‘

پاکستان میں آرٹ کے بارے میں الماس نے بتایا کہ ’اس ملک میں آرٹ کو اتنی اہمیت نہیں ملتی جتنی ملنی چاہیے، کیونکہ زیادہ تر لوگ اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہے۔‘

’یہاں آرٹ کو اتنی توجہ نہیں ملتی جتنی ملنی چاہیے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں آرٹ کی بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کو بہت اہمیت بھی دی جاتی ہے۔‘

الماس کے فن پارے میں کیا دکھایا گیا ہے؟

چھلنی پر سوئی، دھاگے سے بنائے گئے اس فن پارے میں ایک خاتون کو دکھایا گیا ہے، جن کے سر پر مٹکا ہے اور وہ بانسری بجا رہی ہیں جبکہ خاتون افغان روایتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الماس خانم کے مطابق: ’اس فن پارے میں، میں نے خود کو دکھایا جو افغان روایتی لباس میں ملبوس ہوں اور میرے سر پر پانی کا مٹکا ہے جس کا تعلق میرے کلچر سے ہے۔‘

تصویر میں لڑکی کے ارد گرد تاریکی کو دکھایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کلچر اور مذہبی آزادی کے مسائل موجود ہیں۔

’فن پارے میں دکھائی گئی خاتون مذہبی آزادی کے لیے دھن بجا رہی ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ میوزک کے ذریعے تمام مذاہب کے مابین مذہبی ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے۔‘

الماس خانم نے بتایا: ’مذہبی ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے عقائد، تہذیب اور ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں۔‘

مقابلے کے منتظمین کے مطابق ہر ایک کیٹیگری میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے فن پاروں کو دو ہزار پاؤنڈز (تقریباً پانچ لاکھ پاکستانی روپے)، دوسری پوزیشن کو 1500 پاؤنڈز جبکہ تیسری پوزیشن ہولڈرز کو ایک ہزار پاونڈز انعام دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ