گوانتاناموبے میں قید پاکستانی شہری کی رہائی کے بعد وطن واپسی

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں سیف اللہ پراچہ کی وطن واپسی کی تصدیق کی گئی، جنہیں امریکی سی آئی اے نے جولائی 2003 میں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بینکاک ایئر پورٹ سے گرفتار کیا تھا۔

گوانتانامو بے میں قید پاکستانی سیف اللہ پراچہ کی آئی سی آر سی کی جانب سے لی گئی اور وکیل ڈیوڈ ایچ ریمیز کی جانب سے فراہم کردہ تصویر (اے پی)

کیوبا میں قائم بدزمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں قید سب سے پرانے اور ضعیف پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ رہائی کے بعد آج وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں سیف اللہ پراچہ کی وطن واپسی کی تصدیق کی گئی۔

پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کو امریکی سی آئی اے نے جولائی 2003 میں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بینکاک ایئر پورٹ سے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری سے کچھ عرصے قبل ان کے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو بھی نیویارک میں گرفتار کر لیا گیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔

ذیابیطس اور دل کے مرض میں مبتلا 74 سالہ سیف اللہ پراچہ ’بغیر کسی الزام‘ کے گذشتہ کئی سالوں سے گوانتانامو بے حراستی مرکز میں قید تھے۔

انہیں 17 مئی 2021 کو پرزنر ریویو بورڈ نے دو دیگر قیدیوں کے ہمراہ رہا کرنے کی منظوری دی تھی، مگر ان کی وکیل کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی کا انحصار پاکستان امریکہ تعلقات پر ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سیف اللہ پراچہ کی امریکی وکیل شلبی سلووین بینِس کا خصوصی انٹرویو بھی کیا تھا جس میں انہوں نے تمام تر قانونی پیچیدگیوں سے متعلق بات کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل نے بتایا تھا: ’17 مئی کی صبح کو ان (سیف اللہ پراچہ) کو ایک خط پڑھ کر سنایا گیا، یہ خط ایگزیکٹیو برانچ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس میں ان (سیف اللہ پراچہ) کی پاکستان منتقلی کی تجویز دی گئی تھی۔ مجھے اب تک جو بتایا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ کو منتقلی کے لیے ’کلئیر‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں میں قیدی کی اپنے ملک منتقلی اس بات پر منحصر ہے کہ میزبان ملک کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات اچھے ہوں اور اس ملک کی جانب سے یہ تجویر دی جائے کہ قیدی کو ان کے آبائی ملک منتقل کر دیا جائے، نہ کہ دوبارہ امریکہ میں قید رکھا جائے۔‘

انٹرویو کے دوران بطور وکیل اس کیس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شلبی سلووین بینس نے جواب دیا تھا کہ ’سیف اللہ پراچہ گوانتاناموبے میں دو دہائیوں سے بند سب سے معمر قیدی ہیں۔ وہ بے حد قابل احترام ہیں۔ میں عدالتی کارروائی، قواعد کی خلاف ورزیوں اور ان کی اسیری کو جذباتی انداز میں دیکھتی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا: ’اس دوران اس مرکز میں ایک اوسط قیدی نے قواعد کی کئی خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بعض نے ہزاروں خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بہت سے لوگوں نے بھوک ہڑتال کی جسے ضابطے کی خلاف ورزی سمجھا گیا۔ جہاں تک سیف اللہ پراچہ کا تعلق ہے کہ انہوں نے کتنی بار قواعد کی خلاف ورزی کی، یہ معاملہ خفیہ رکھا گیا ہے لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ ان کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کی تعداد ان قیدیوں سے کم ہے جو آج گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں رہ گئے ہیں۔‘

وکیل نے کہا تھا کہ ’پراچہ نے نہ صرف قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا بلکہ ان مریکی فوجیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ اچھا تھا جو انہیں پر کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر انہیں قید میں رکھے ہوئے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان