معروف ایرانی اداکارہ کا احتجاجی مہم کی مکمل حمایت کا اعلان

ترانہ علی دوستی کو ایران میں خواتین کے حقوق اور وسیع تر انسانی حقوق کی محافظ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

38 سالہ ترانہ علی دوستی نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ 'میں وہ ہوں جو یہاں رہتی ہوں اور میرا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے (ترانہ انسٹاگرام)

ایران میں رہنے والی معروف ترین اداکاراؤں میں سے ایک نے اتوار کو ملک کو ہلا کر رکھ دینے والی احتجاجی تحریک کی بھرپور حمایت کی ہے اور اپنے وطن میں رہنے اور اپنے حقوق کے لیے ’کوئی بھی قیمت‘ ادا کرنے کا عہد کیا ہے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار اصغر فرہادی کی فلموں میں باقاعدہ اداکارہ کے طور پر بین الاقوامی ناظرین کے لیے مشہور ترانہ علی دوستی نے کہا کہ وہ اداکاری بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس کی بجائے کریک ڈاؤن میں ہلاک یا گرفتار ہونے والوں کے اہل خانہ کی مدد کریں گی۔

38 سالہ ترانہ علی دوستی نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں وہ ہوں جو یہاں رہتی ہوں اور میرا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے پاس ایرانی پاسپورٹ یا بیرون ملک رہائش کے علاوہ کوئی دوسرا پاسپورٹ ہے۔

’میں رہوں گی، میں کام کرنا چھوڑ دوں گی۔ میں قیدیوں اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔ میں ان کی وکیل بنوں گی۔

’میں اپنے گھر کے لیے لڑوں گی۔ میں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کروں گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ ہم آج مل کر کیا تعمیر کر رہے ہیں۔‘

ایک ہیش ٹیگ کے طور پر انہوں نے احتجاجی تحریک کے مرکزی نعرے کا استعمال کیا: ’عورت، حیات، آزادی۔‘

ترانہ علی دوستی کو ایران میں خواتین کے حقوق اور وسیع تر انسانی حقوق کے واضح محافظ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جب نومبر 2019 میں ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ایرانی شہریوں کی بجائے ’لاکھوں قیدی‘ ہیں۔

ان کا سب سے مشہور کردار فرہادی کی فلم ’دی سیلز مین‘ میں تھا، جس نے 2017 میں آسکر میں بہترین غیرملکی زبان کی فلم کا ایوارڈ جیتا تھا۔

لیکن وہ اپنی نوجوانی سے ہی ایرانی سینیما کے منظر نامے پر نمایاں طور پر موجود رہی ہیں اور انہوں نے ہدایت کار سعید روستائی کی حالیہ قابل تعریف فلم ’لیلا برادرز‘ میں بھی اداکاری کی تھی جو اس سال کے کانز فیسٹیول میں دکھائی گئی تھی۔

مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والی سات ہفتوں پرانی احتجاجی تحریک کے آغاز سے پہلے ہی ایرانی سینیما کی شخصیات دباؤ میں تھیں۔

انعام یافتہ ہدایت کار محمد رسولوف اور جعفر پناہی کو اس سال کے اوائل میں گرفتار کیے جانے کے بعد سے حراست میں رکھا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق ایران میں ملک گیر احتجاج کو 50 واں دن گزر گیا ہے تاہم مظاہرین کے قتل، گرفتاریوں اور دھمکیوں کے باوجود مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں جاری ہیں۔ ایران کے درجنوں شہر مظاہروں میں شامل ہو گئے ہیں اور سڑکیں، یونیورسٹیاں اور سکول مظاہرین کے ساتھ تصادم کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبررساں ایجنسی ہرانا کی رپورٹ کے مطابق ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ نیوز آرگن نے کہا ہے کہ حالیہ بغاوت کے دوران 50 بچوں سمیت کم از کم 319 افراد ہلاک اور سکیورٹی فورسز نے 428 طلبا سمیت تقریباً 15 ہزار افراد کو گرفتار کیا ہے۔

اس وقت ایران کے 136 سے زیادہ شہر اور 135 کے قریب یونیورسٹی مراکز احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں اور گذشتہ 50 دنوں کے دوران پورے ایران میں 860 سے زیادہ احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔

وسیع پیمانے پر احتجاج جاری ہے اور پھیل رہا ہے۔ مریوان، کرمان، کرمانشاہ، بوشہر، سنندج، ساقیز، بوکان اور تہران جیسے شہروں میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔

تہران میں بھی نرمک، ستار خان، تہران پارس، جموہری سٹریٹ اور فردوسی سٹریٹ جیسے علاقوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور لوگوں نے ’آمر مردہ باد‘ جیسے نعرے لگائے۔

شہر کی دیواروں پر نعرے لکھنے اور رات کے اخبارات کی تقسیم کا سلسلہ بھی وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ ان دنوں شہر کی دیواروں پر جو نعرے دیکھے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک ہے ’میں آغاز لکھتا ہوں، تم اسے اختتام پڑھو۔‘

اتوار کو ایرانی سکولوں اور یونیورسٹیوں کے بڑی تعداد میں طلبہ نے احتجاج اور ہڑتال کی۔ بچوں کے قتل، سکولوں میں سکیورٹی اہلکاروں کی یلغار، طلبا کی مار پیٹ اور ان کے اغوا کے واقعات نے بچوں کے حقوق کے کارکنوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا۔

ٹیچرز ٹریڈ یونینز کی کوآرڈینیٹنگ کونسل نے بھی ایک بیان شائع کیا اور سوشل میڈیا اور ورچوئل سپیس کے کارکنوں کو دعوت دی کہ وہ گذشتہ 50 دنوں میں 50 سے زیادہ بچوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ورچوئل مہم میں شامل ہوں جس میں ’نو ٹو چائلڈ کلنگ‘ ہیش ٹیگ شامل ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین