خیبر پختونخوا: لانگ مارچ کے لیے غلیل کی خریداری کیوں کی گئی؟

اس سے قبل صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے بھی کہا تھا کہ اگر حکومت نے ’غنڈہ گردی کی تو وہ اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘

لاہور سے پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کا قافلہ روانہ ہوا تو گذشتہ ہفتے دیگر صوبوں سمیت خیبر پختونخوا میں بھی ان کے کارکنوں نے تیاری پکڑ لی۔ 

انہی تیاریوں میں ایک خبر یہ بھی گردش کرنے لگی کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں غلیل خرید لی ہیں، باوجود اس حقیقت کے کہ پی ٹی آئی مسلسل ’پرامن مارچ‘ کی بات پر مُصر ہے۔

غلیل کے حوالے سے خبروں کی تائید ایک تصویر کی شکل میں بھی ظاہر ہوئی جس میں اندرون شہر پشاور سے پی ٹی آئی کے ایک سابق ضلع ناظم ارباب عاصم ہاتھ میں غلیل تھامے نظر آتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان سے اس کی تصدیق کرنا چاہی اور پوچھا کہ کس مقصد کی خاطر انہوں نے غلیل خریدی ہے تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ’سیلف ڈیفنس‘ کے لیے خریدی ہے۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں خریدی ہوں گی کیونکہ ہم کسی غیر متوقع صورت حال میں اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔‘

یہی بیان وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے بھی میڈیا کو دیا کہ اگر حکومت نے ’غنڈہ گردی کی تو وہ اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘

اسی دوران سوشل میڈیا پر غلیلوں پر میمز بھی بنیں جن میں کہا گیا کہ ’ڈرتے ہیں بندوقوں والے پشاور کی غلیلوں سے۔‘

راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے احتجاج کی اخبارات میں جو تصاویر شائع ہوئیں ان میں بھی نوجوانوں کو پولیس پر پتھراؤ کے لیے غلیل کا استعمال کرتے دیکھا گیا ہے۔ 

غلیل کے خطرناک نتائج جانتے ہوئے بھی اس پر آج تک کبھی کوئی قانون لاگو ہوا اور نہ ہی اس کا لائسنس بنوایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح اس کا کاروبار کرنے والے بھی بےخوف وخطر اس کو بیچتے ہیں۔

جب انڈپینڈنٹ اردو نے اندرون شہر پشاور میں اسی دکان دار سے بات کی جہاں ارباب عاصم نے تصویر کھنچوائی تھی تو انہوں نے کہا کہ ’جب سابق ناظم میری دکان میں تشریف لائےتو انہیں ایک غلیل پسند آئی، جو میں نے احترام کے طور پر انہیں تحفے میں دے دی۔ میری دکان سے انہوں نے صرف ایک غلیل خریدی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا دھرنے یا احتجاج کے موقعوں پران سے غلیلیں خریدی جاتی ہیں، اور کیا ان کے پاس ایسے کوئی اعدادوشمار ہیں تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں کبھی ذرا بھی شک ہوا کہ کوئی بھی شخص غلط مقاصد کے لیے ان سے خریداری کر رہا ہے تو وہ بیچنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

اسی دوران دکان میں بیٹھے ایک سیلزمین نے کہا کہ آپ جس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہ رہی ہیں وہ آپ کو یہاں کوئی بھی کبھی نہیں بتائے گا، کیونکہ اس سے نہ صرف ان کی دکان بند ہونے کا خدشہ ہے، بلکہ ان کو سزا بھی مل سکتی ہے۔

باقی دکان داروں سے بھی اس بارے میں دریافت کیا گیا لیکن معلوم ہورہا تھا کہ گویا سب پہلے سے محتاط اور چوکس تھے اور وہ سب ایک ہی طرح کا جواب دے رہے تھے۔

دکان داروں کے مطابق پچھلے آٹھ سال سے غلیلوں کی خرید میں اچھی خاصی کمی آئی ہے لیکن پھر بھی کسان اور دیہاتوں کے دکان دار ان سے ہول سیل میں خریداری کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کاروبار ابھی تک قائم ہے۔

ایک دکان دار احمد نے کہا کہ ’یہ غلیل اس قدر خوبصورت اور جاذب نظر ہیں، کہ اکثر خواتین گھروں اور ہوسٹل میں سجاوٹ کے لیے بھی لے کر جاتی ہیں۔‘

غلیل کا استعمال پاکستان میں سب سے پہلے کس سیاسی جماعت نے کیا، اس کے بارے میں وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن اس کو دفاع کے لیے احتجاج اور مارچ میں لے جانے کا اقرار سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے کیا ہے۔

دیگر جماعتوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے لے جانے کا ثبوت میڈیا کی رپورٹس میں ملتا ہے، اور وہ غلیل کے استعمال اور ساتھ لے جانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان