آسٹریلوی وزیراعظم سمیت لاکھوں افراد کا طبی ڈیٹا ڈارک ویب پر اپ لوڈ

’شرارتی‘ فہرست میں جمعے کو مریضوں کے ذاتی طبی ریکارڈز ڈارک ویب پر اپ لوڈ کیے گئے اور اس بار الکوحل سے متعلق بیماریوں کا ڈیٹا لیک کیا گیا ہے۔

22  اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں آسٹریلیا کے وزیراعظم اینتھونی البانیز پرتھ میں واقع کنگز پارک میں ایک کوالا کے ساتھ پوز دیتے ہوئے۔ وزیراعظم بھی ان لاکھوں افراد میں شامل ہیں، جن کا طبی ڈیٹا لیک کیا گیا ہے (اے ایف پی)

آسٹریلیا میں سائبر جرائم پیشہ افراد مریضوں کی معلومات کے بدلے تاوان نہ ملنے کے بعد ہیلتھ انشورنس کمپنی میڈی بینک کا ڈیٹا ڈارک ویب پر ڈال رہے ہیں۔

جمعے کو تیسرے دن بھی مریضوں کے ذاتی طبی ریکارڈز ڈارک ویب پر اپ لوڈ کیے گئے۔ اس بار الکوحل سے متعلق بیماریوں کا ڈیٹا لیک کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ان جرائم پیشہ افراد نے آسٹریلیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تقریباً ایک کروڑ افراد کے چوری شدہ کسٹمر ڈیٹا کے لیے تاوان ادا کرے۔

تاہم جب میڈی بینک نے ہیک شدہ ڈیٹا کی واپسی کے لیے تاوان ادا کرنے سے انکار کر دیا تو ان ہیکرز نے بدھ کو سینکڑوں صارفین کے ریکارڈز کو ڈارک ویب پر اپ لوڈ کرنا شروع  کر دیا، جس میں ایچ آئی وی اور منشیات کی لت کے علاج کی تفصیلات شامل ہیں۔ اس ڈیٹا کو انہوں نے ’شرارتی‘ فہرست کا نام دیا۔

حکام نے بتایا کہ جمعرات کو حمل ضائع کرنے اور جمعے کو الکوحل کے استعمال کی نقصان دہ سطح کے متعلق مریضوں کی معلومات لیک کی گئیں۔

جمعے کو 700 سے زیادہ کسٹمرز کے طبی علاج کا ریکارڈ  لیک کیا گیا۔ اسے آسٹریلیا کا سب سے زیادہ جارحانہ سائبر جرم کہا جا رہا ہے۔

بہت سے کسٹمرز کی دیگر ذاتی تفصیلات بشمول فون نمبر اور ای میل ایڈریس بھی لیک کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی شناخت چوری ہو سکتی ہے یا وہ دھوکہ دہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

تیسری بار ڈیٹا لیک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے میڈی بینک کے سی ای او ڈیوڈ کوزکر نے کہا کہ ان کی کمپنی ان صارفین سے رابطہ کر کے مدد کی پیش کش کر رہی ہے، جن کی معلومات لیک ہوئی ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مزید ڈیٹا بھی لیک ہوگا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’مجرم جو حربہ استعمال کر رہے ہیں اس کی مقصد تکلیف اور نقصان پہنچانا ہے۔‘

میڈی بینک کے سی ای او نے مزید کہا کہ ’یہ معلومات اصل لوگوں کی ہیں اور ان کی معلومات کا غلط استعمال افسوس ناک ہے۔ ایسا کرنے سے لوگوں کے طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے۔‘

آسٹریلوی حکام کو امید ہے کہ یہ ڈیٹا ڈارک ویب تک ہی محدود رہے گا اور سوشل میڈیا یا تفصیلی خبروں کے ذریعے زیادہ عوام تک نہیں پھیلے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم انتھونی البانیز، بھی ہیلتھ انشورنس کمپنی میڈی بینک کے 97 لاکھ موجودہ اور سابق صارفین میں سے ایک ہیں، جن کا ذاتی ریکارڈ چوری کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا ہے کہ ’ہمیں اس طرح کے مجرمانہ، قابل مذمت اور گھناؤنے رویے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا: ’اس کی وجہ سے کمیونٹی میں بہت زیادہ پریشانی پیدا ہو رہی ہے۔ حکومت اسے تسلیم کرتی ہے اور ہم اس کے اثرات کو محدود کرنے اور ان لوگوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جو اس تکلیف دہ وقت سے گزر رہے ہیں۔

وزیراعظم انتھونی البانیز نے مزید کہا کہ آسٹریلوی وفاقی پولیس جمعے کی شام تک بتائے گی کہ اس چوری کا ذمہ دار کون ہے۔

انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ان کا احتساب ہونا چاہیے۔‘

’ڈیٹا لیک کے ذمہ دار روسی ہیکرز‘

آسٹریلوی فیڈرل پولیس کا کہنا ہے کہ انشورنس کمپنی میڈی بینک پر سائبر حملے کے پیچھے روس سے تعلق رکھنے والے ہیکرز کا ہاتھ تھا، جس نے موجودہ اور سابق صارفین کی تفصیلات چرائیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق آسٹریلوی فیڈرل پولیس کے کمشنر ریس کرشا نے میڈی بینک پر حملے کا الزام سائبر جرائم پیشہ افراد کے ایک گروپ پر عائد کیا جو ممکنہ طور پر دنیا بھر میں دیگر بڑی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ہے۔

کرشا نے کہا کہ آسٹریلوی فیڈرل پولیس کو معلوم ہے کہ کون سے افراد ذمہ دار ہیں لیکن فی الحال ان کا نام نہیں لیا جائے گا۔

انہوں نے جمعے کو ایک مختصر نیوز کانفرنس میں مجرموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر، جب انصاف کا سامنا کرنے کے لیے غیر ملکی مجرموں کو آسٹریلیا واپس لانے کی بات آتی ہے تو آسٹریلوی فیڈرل پولیس نے کچھ لوگوں کو پہلے بھی گرفتار کیا ہے۔‘

پولیس کمشنر نے کہا کہ آسٹریلوی فیڈرل پولیس ان افراد کے بارے میں روسی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بات چیت کرے گی۔

روس کے سفارت خانے نے فوری طور پر ان سوالات کا جواب نہیں دیا جن میں پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ ہیکنگ کے معاملے پر آسٹریلوی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی