درگاہ اڈیرو لال جہاں ایک ہی چھت تلے مسجد اور مندر موجود

درگاہ اڈیرو لال سندھ میں مذہبی رواداری کی مثال سمجھی جاتی ہے، جہاں ایک طرف ہاتھ باندھے ہندو عقیدت مند عبادت میں مصروف ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ہاتھ پھیلائے مسلمان دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔

ویسے تو قدیم روایات کے تحت سندھ میں موجود متعدد درگاہوں پر ہندوؤں اور مسلمانوں سمیت مختلف مذاہب اور فرقوں سے وابستہ افراد ایک ساتھ کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں، مگر درگاہ اڈیرو لال مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا مرکز سمجھی جاتی ہے، جہاں مندر اور مسجد ایک ساتھ قائم ہیں۔ 

یہ درگاہ حیدرآباد سے 50 کلومیٹر دور واقع ایک چھوٹے سے شہر اڈیرو لال میں ہے اور اس شہر کا نام درگاہ کے نام سے ہی منسوب ہے۔

درگاہ کی انتظامیہ کے مطابق یہ درگاہ ایک ہزار ستر سال قدیم ہے۔

درگاہ اڈیرو لال کے ہندو شیوا دھاری (متولی) مہیش کمار کے مطابق: ’یہ درگاہ سندھی کیلنڈر یا بکرمی کیلنڈر کے سال 1007 میں بنی تھی، جسے اب 1007 سال ہوچکے ہیں۔‘

مہیش کمار نے مزید بتایا کہ ’یہ درگاہ جن بزرگ کے نام سے منسوب ہے، مسلمان انہیں شیخ محمد طاہر بلاتے ہیں جبکہ ہندو انہیں امر لال، شری امرلال، جھولے لال، اڈیرو لال اور پانی والا پیر کے علاوہ ’پلے وارو پیر‘ بھی کہتے ہیں، کیوں کہ روایت ہے کہ وہ پلا مچھلی پر سوار ہو کر آئے تھے۔ عام طور پر انہیں ’زندہ پیر‘ اور ’خواجہ خضر‘ بھی کہا جاتا ہے۔‘

 

درگاہ اڈیرو لال سندھ میں مذہبی رواداری کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ جہاں ایک چھت تلے ایک طرف مندر تو دوسری جانب مسجد ہے۔ ان دونوں عبادت گاہوں کے درمیان اڈیرو لال کا مزار ہے، جہاں ایک طرف ہاتھ باندھے ہندو عقیدت مند عبادت میں مصروف ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ہاتھ پھیلائے مسلمان دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔

ایک طرف اذان ہو رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب ہندو پوجا پاٹ میں مصروف ہوتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درگاہ اڈیرو لال کے مسلمان متولی ذوالفقار علی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درگاہ کے ہندو اور مسلمان دونوں ہی ماننے والے ہیں۔

’درگاہ میں جب لنگر ہوتا ہے تو ہندو اور مسلمان ایک ہی پلیٹ میں کھاتے ہیں۔ ‘

ان کے مطابق: ’یہ مذہبی روزداری اور مشترکہ عقیدت کی ایک مثال ہے۔ مندر میں چار چراغ جلتے ہیں جنہیں اکھنڈ جوت کہا جاتا ہے۔ مندر میں ایک جھولا بھی رکھا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں ایسی محبت نہیں ملے گی۔‘

درگاہ کے ہندو شیوادھاری مہیش کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مسلمان ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ سب آپس میں بھائی ہیں۔ ہم بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی تفریق نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان