ملائیشیا: نصف صدی کی جدوجہد کے بعد انور ابراہیم وزیراعظم مقرر

انور ابراہیم کو اصلاح پسند رہنما سمجھا جاتا ہے جو ’عرب سپرنگ‘ کی طرز پر ملائیشیا کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیاں چاہتے ہیں۔

ملائیشیا کے بادشاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے جمعرات کو انور ابراہیم کو ملک کا اگلا وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بادشاہ کے محل سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ انورابراہیم شام پانچ بجے حلف اٹھائیں گے۔

ملائیشیا میں 19 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی، جس میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے دو اہم دعویداروں حزب اختلاف کے رہنما انور ابراہیم اور سابق وزیراعظم محی الدین یاسین میں سے کوئی بھی حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکا تھا۔

انتخابات میں انور ابراہیم کے ترقی پسند اتحاد نے سب سے زیادہ 82 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ محی الدین کےقدامت پسند مالائی مسلم اتحاد نے 73 نشستیں حاصل کی تھیں۔ انہیں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت یعنی 112 نشستوں کی ضرورت تھی۔

ان انتخابات نے ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام کو طول دے دیا تھا، جہاں چند برس کے اندر اندر تین وزرائے اعظم رہ چکے ہیں اور معاشی بحالی کے لیے درکار پالیسی فیصلوں میں تاخیر کا خطرہ ہے۔

اس سیاسی بحران کے دوران 22 نومبر کو بادشاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے قومی محل کے باہر وزیراعظم کے تقرر کا اعلان کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا تھا: ’میں جلد ہی فیصلہ کر لوں گا۔‘

انہوں نے ملائیشیا کے عوام سے بھی کہا کہ وہ حکومت سازی کے بارے میں کسی بھی فیصلے کو قبول کریں۔

انور ابراہیم: ہم جنسی کے الزام میں قید سے وزارتِ عظمیٰ تک

75 سالہ انور ابراہیم ہمیشہ سے ملائیشیائی سیاست میں نمبر ٹو رہے ہیں۔

1990 کی دہائی میں وہ سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کے دور میں نائب وزیراعظم رہ چکے ہیں اور انہیں ملائیشیا کا اگلا وزیراعظم قرار دیا جاتا تھا، مگر ان کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں 30 برس کا وقت لگ گیا۔

انور نے مسلم یوتھ جنریشن نامی ایک اسلام پسند طلبہ تنظیم کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی۔ اس وقت کے وزیراعظم عبدالرزاق نے ایک تقریر میں ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کے والد پر زور دیا تھا کہ وہ انور کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجیں۔ 

تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے 1982 میں یو ایم این او نامی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جو 1957 میں ملائیشیا کی آزادی کے بعد سے ملک کی نمایاں سیاسی قوت تھی اور اس وقت اقتدار میں بھی تھی۔ اس جماعت کے مرکزی رہنما مہاتیر محمد تھے جنہوں نے انور کو اپنے قریبی حلقے میں شامل کر لیا۔ 

یو ایم این او میں شمولیت کے بعد انور ابراہیم نے تیزی سے ترقی کی اور مختلف وزارتوں پر فائز رہے جن میں وزارت خزانہ اور نائب وزیراعظم کا عہدہ شامل ہیں۔ 1993 میں وہ مہاتیر محمد کے نائب مقرر ہو گئے اور ان کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ ملائیشیا کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اگلے برسوں میں مہاتیر اور انور کے درمیان دراڑ پڑ گئی جو وقت کے ساتھ گہری ہونے لگی۔ انور ابراہیم کو مہاتیر محمد کی معاشی پالیسیوں پر اعتراض تھا، جس کا اظہار وہ موقع بہ موقع کرتے رہتے تھے۔ 

1997 میں ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر انور ابراہیم کی تصویر لگائی جس کی سرخی تھی: ’انور ابراہیم اور ایشیا کا مستقبل۔‘ رسالے نے اس کے نیچے لکھا: ’کیا مہاتیر انہیں موقع دیں گے؟‘

موقع دینا تو الگ رہا، رفتہ رفتہ حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ 1998 میں مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کو نائب وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا۔

انور سڑکوں پر چلے گئے اور انہوں نے مہاتیر محمد کے خلاف عوامی مظاہرے شروع کر دیے۔

اس کے بعد انور ابراہیم کو ہم جنس پرستی کے الزام میں ایک متنازع مقدمے کے بعد قید کی سزا سنا دی گئی اور وہ چھ برس تک سلاخوں کے پیچھے بند رہے۔ اس دوران ان کی اہلیہ وان عزیز نے ایک سیاسی جماعت قائم کی جس کا نام ’پیپلز جسٹس پارٹی‘ رکھا گیا۔ اس جماعت نے انور کے حق میں ملک گیر مظاہرے شروع کر دیے۔

بالآخر 2004 میں ملائیشیا کی سپریم کورٹ نے ان کی قید کا فیصلہ غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انور ابراہیم کے خلاف جو اہم شواہد فراہم کیے گئے تھے وہ ناقابلِ یقین تھے اور ہائی کورٹ کو انہیں پہلے ہی رہا کر دینا چاہیے تھا۔

انور ابراہیم نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا کہ بدفعلی سے متعلق ان پر عدالت میں لگائے جانے والے الزامات کے پس پردہ سیاسی محرکات تھے۔

انور کی قید کے دوران ان کا سیاسی گراف اوپر چڑھتا گیا اور بین الاقوامی طور پر بھی ان کی سزا کو سیاسی فیصلہ سمجھا جاتا رہا۔

ایک بار پھر انور ابراہیم کو ملک کا اگلا وزیراعظم سمجھا جانے لگا مگر 2014 میں کورٹ آف اپیل کے ایک متفقہ فیصلے میں انور ابراہیم پر لگے الزام کی توثیق کرتے ہوئے انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے اس فیصلے کی مذمت کی۔

2016 میں ان کے سابق حریف مہاتیر محمد ریٹائرمنٹ کی زندگی سے واپس آ کر نہ صرف ملک کے وزیراعظم بن گئے بلکہ انہوں نے 92 سال کی عمر میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کے معمر ترین وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا۔ 

آخر 2018 میں انور ابراہیم کو ملائیشیا کے بادشاہ کی طرف سے شاہی معافی مل گئی اور وہ جیل سے رہا کر دیے گئے۔ اس دوران مہاتیر محمد اور انور ابراہیم کے اختلاف ختم ہو چکے تھے اور ایک بار پھر حلیف بن گئے تھے اور مہاتیر محمد نے انہیں اپنا جانشین بھی مقرر کر دیا۔

2020 میں انور ابراہیم حزبِ اختلاف کے سربراہ مقرر ہوئے اور 2022 کے انتخابات میں بالآخر ان کی جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ وہ تقریباً نصف صدی کی جدوجہد کے بعد ملائیشیا کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔

انور ابراہیم کو اصلاح پسند رہنما سمجھا جاتا ہے جو ’عرب سپرنگ‘ کی طرز پر ملائیشیا کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیاں چاہتے ہیں۔

ملائیشیا کے معاشی قوت بننے میں انور ابراہیم کا بھی بڑا ہاتھ ہے اور مہاتیر محمد کے دور میں ملک کی برق رفتار نشو و نما کے دور میں وہی ملک کے وزیرِ خزانہ تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا