بڑے ناموں سے ’خالی‘ لکس سٹائل ایوارڈز

اکیسویں لکس سٹائل ایوارڈز میں فلم ’کھیل کھیل میں‘نے میلہ لوٹ لیا جبکہ ڈراموں میں ’رقیب سے‘ اور ’پری زاد‘ تین، تین ایوارڈز کے ساتھ برابر رہے۔

عروہ حسین اور عثمان خالد بٹ تقریب میں پرفارم کر رہے ہیں (تصویر لکس سٹائل ایوارڈز)

دو برس کی کرونا پابندیوں کے بعد جمعرات کو لاہور میں منعقدہ لکس سٹائل ایوارڈز کا میلہ فلم ’کھیل کھیل میں‘ نے لوٹ لیا۔

فلم کیٹیگری کے چاروں اعزاز اس فلم کے نام ہوئے جن میں بہترین فلم، بہترین گانا (نئی سوچ)، بہترین اداکار (بلال عباس) اور بہترین اداکارہ (سجل علی) قرار پائے۔
ٹی وی ڈرامے میں اس مرتبہ کل 11 کیٹیگریز تھیں جن میں کچھ نئی کیٹیگریز شامل ہوئیں۔
ان میں بہترین طویل دورانیے کا ڈراما اور بہترین ’انسامبل‘ ڈراما کیٹیگری میں بالترتیب ’رنگ محل‘ اور ’دل ناامید تو نہیں‘ کو اعزاز ملے۔
ٹی وی ڈرامے میں ’پری زاد‘ اور ’رقیب سے‘ نے تین، تین ایوارڈ اپنے نام کیے۔ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ کاشف نثار کو ڈرامے ’رقیب سے‘ کے لیے دیا گیا۔
عوامی پسند کے حوالے سے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ عائزہ خان کو ’چپکے چپکے‘ کے لیے ملا جبکہ جیوری نے اس کا حق دار حدیقہ کیانی کو ڈراما ’رقیب سے‘ کے لیے قرار دیا۔
رقیب سے حدیقہ کیانی کا بطور اداکار پہلا ڈراما ہے۔ بہترین ڈبیو کا اعزاز اس مرتبہ انہی کے نام رہا۔
بہترین اداکار کے زمرے میں جیوری کا ایوارڈ ڈراما سیریل ’پری زاد‘ کے مرکزی کردار پر احمد علی اکبر قرار پائے۔
عوامی رائے کا یہی ایوارڈ فیروز خان کو ’خدا اور محبت‘ کے لیے ملا۔
بے مثال کامیابی حاصل کرنے والے ’پری زاد‘ کو بہترین ڈراما قرار دیا جبکہ اس کے مصنف ہاشم ندیم بھی ایوارڈ لے گئے۔
ڈرامے کے بہترین ساؤنڈ ٹریک کا اعزاز راحت فتح علی خان کے ’خدا اور محبت‘ کے حصے میں آیا۔
رواں برس کے بہترین گلوکار کا ایوارڈ علی ظفر کو ملا، جن کے تین گانے ’پہاڑوں کی قسم‘، ’پہلی سی محبت‘ اور ’بلغ العلیٰ بکمالہ‘ نامزد تھے۔
رواں برس کا بہترین گانا ینگ سٹنرز کا افسانے قرار پایا۔ نتاشا بیگ بھی اپنی زندگی کا پہلا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئیں جو انہیں 2021 کے لاہورتی میلو میں بہترین لائیو گلوکاری پر دیا گیا۔
بہترین میوزک پروڈیوسر کا ایوارڈ عبداللہ صدیقی کے حصے میں آیا۔
اس سال کی نئی کیٹیگری بہترین نوجوان گلوکار کا ایوارڈ خواجہ دانش سلیم کو دیا گیا۔
اکیسویں لکس اسٹائل ایوارڈز میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر بات پاکستانی فلموں کی نام ور اداکارہ انجمن کو خصوصی طور پر مدعو کرکے انہیں ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ دیا جانا تھا۔
انجمن کی شہرت پنجابی فلموں کی ایکشن ہیروئین کے طور پر رہی ہے۔ انہوں نے تقریباً 20 سال سے زیادہ عرصے تک فلموں میں کام کیا اور اپنا نرالا انداز چھوڑا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کے متعدد مشہور پنجابی گانے ان پر ہی فلمائے گئے۔ انجمن کو خراجِ تحسین حمیمہ ملک نے ان کے ایک مقبول گانے ’سونے دیا کنگنا، سودا اکو جیا‘ پر رقص پیش کرکے دیا۔
حمیمہ نے اپنے انداز کو چھوڑ کر انجمن کے انداز کو بہت عمدگی سے اپنا کر جتا دیا کہ وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ ویسے مولا جٹ میں حمیمہ کے ٹھمکوں کی کمی یہاں پوری ہوگئی۔
چینج میکر ایوارڈ بعد از مرگ نازیہ حسن کے نام رہا جنہوں نے پاکستان میں مشرقی اور مغربی موسیقی کا حسین امتزاج پیش کیا۔
اس موقعے پر ان کے بھائی زوہیب حسن کا ویڈیو پیغام نشر کیا گیا۔
ایوارڈز کے دعوتی کارڈ پر جو بھی وقت لکھا ہو، تقریب باقاعدہ کا آغاز رات پونے 10 بجے ہوا اور ڈیڑھ بجے اس تقریب کا اختتام ہوا۔ لکس سٹائل ایوارڈ کے اعتبار سے یہ جلدی ہی تھا ورنہ پانچ گھنٹے تو کئی مرتبہ لگے ہیں۔
تقریب کا آغاز بلوچ گلوکار و موسیقار عبدالوہاب بگٹی اور شہزاد رائے نے قومی ترانے کی دھن کو ایک منفرد انداز میں پیش کرکے کیا۔
صرف روایتی سازوں کی مدد سے پیش کیے گئے قومی ترانے نے اچھا اثر چھوڑا خاص کر عبدالوہاب بگٹی کا بلوچی لہجے عمدہ تھا۔
تقریب کی میزبانی سے اگر کسی نے رنگ بھرے تو وہ تابش ہاشمی تھے جن کے برجستہ، مزاح سے بھرپور دلچسپ اور موقع محل کی مناسبت سے ہلکے پھلکے طنز میں لپٹے ترش جملوں نے محفل کو کشتِ زعفران بنائے رکھا۔
اگرچہ تقریب کی میزبانی کا آغاز فہد مصطفیٰ اور دنانیر مبین نے کیا اور بعد میں عثمان خالد بٹ اور منشا پاشا نے اپنا حصہ ڈالا لیکن حیرت انگیز طور پر فہد مصطفیٰ نے کچھ زیادہ اثر نہیں چھوڑا۔
عثمان خالد بٹ اور دنانیر کی میزبانی کی بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے البتہ منشا سے امید تھی لیکن اس سال بھی وہ صرف سٹیج پر گلیمر میں اضافے کا سبب بنی رہیں۔
پرفارمنس کی بات کریں، جو ایوارڈ شوز کا ہمیشہ سے اہم ترین حصہ ہوتی ہیں، تو علی ظفر کے اپنے ہی مختلف علاقائی زبانوں میں پیش کیے گئے گانوں پر گُل پانڑا اور عابد بروہی کے ساتھ رقص نے ماحول گرما دیا اور محفل
میں سندھی اور  پشتو زبانوں کے گانوں نے جیسے دھنک کے رنگ بکھیر دیے۔
اس رات کی دوسری بہترین پرفارمنس امر خان کی تھی جنہوں نے نازیہ حسن کو خراج تحسین پیش کرنے لیے ان کے گانے ’آؤ نا پیار کریں‘ پر اپنے سیمابی انداز میں تھرک کر رنگ جما دیا۔
تاہم یہ سمجھ نہیں آیا کہ امر خان جیسی بہترین رقاصہ کے ساتھ کنزہ ہاشمی اور عثمان خالد بٹ کو کیوں شامل کیا گیا۔ ان دونوں کی وجہ سے رنگ میں بھنگ پڑا۔
عاصم اظہر کی ’میری جان‘ پر پرفارمنس کی قابلِ ذکر بات پہلی صف میں بیٹھی اپنی منگیتر میرب علی کو آخر میں پھول پیش کرنا تھا۔
عروہ حسین اور عثمان خالد بٹ کے نازیہ حسن  کے گانے ’ڈسکو دیوانے‘ پر رقص کا معیار کافی بہتر ہوسکتا تھا۔
لکس ایوارڈز میں پہلے بھی یہ گانا کئی مرتبہ آیا ہے مگر اس مرتبہ بالکل متاثر کن نہیں تھا۔
عروہ نے کبھی بھی سٹیج پر اچھا پرفارم نہیں کیا اور اس مرتبہ بھی وہ کوئی کمال نہیں کر سکیں۔
رواں سال ایوارڈز میں ایک حیرت انگیز بات پاکستان کے بڑے ناموں کی عدم شرکت تھی۔ ایوارڈ جیتنے والوں میں نہ تو سجل علی تھیں نہ بلال عباس۔ حدیقہ کیانی جنہیں دو ایوارڈ ملے، وہ بھی نظر نہیں آئیں۔
پری زاد کے مصنف ہاشم ندیم بھی نہیں تھے۔ بہترین فلم کے لیے فضہ علی میرزا بھی موجود نہیں تھیں۔
ایوارڈ یافتگان کا موجود نہ ہونا اس طرح کی تقریب کو بے رنگ اور پھیکا بنا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے نامزد افراد بھی تقریب میں موجود نہیں تھے اور نامزد نہ بھی ہوں، اس طرح کی ایوارڈز کی رات مہوش حیات، ماہرہ خان، مایا علی، کبریٰ خان سمیت کئی نام ور ترین اداکاراؤں کے نہ ہونے سے ریڈ کارپٹ
اور سٹیج پھیکا پھیکا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرد اداکاروں میں ہمایوں سعید، احسن خان، فیصل قریشی، شہریار منور، میکائل ذوالفقار اور بلال اشرف سمیت کئی بڑے نام موجود نہیں تھے۔ ان سب کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔
یاد رہے 2019 میں کراچی میں منعقدہ لکس سٹائل ایوارڈز کی چمک دمک، گلیمر اور سٹارڈم آج بھی یاد ہے۔
پھر کرونا وبا کی وجہ سے 2020 میں ایوارڈز مہمانوں اور میڈیا کے بغیر ہوئے، 2021 میں ان ایوارڈز کو وبا کے باعث محدود مہمانوں کے ساتھ منعقد کیا گیا۔
اس مرتبہ امید تھی کہ تقریب پوری آب و تاب کے ساتھ ہوگی۔ ماحول، سیٹ اور دیگر ساز و سامان تو پورا تھا، مگر جیسے آلودگی نے آسمان پر بکھرے سینکڑوں ستاروں کو غائب کردیا ہے کچھ ایسا ہی ان ایوارڈز کے ساتھ ہوا۔
فیشن ایوارڈز میں اس سال مرد و خواتین ماڈل کی کیٹگری کو ایک رکھا گیا جس میں بہترین ماڈل کا ایوارڈ نمرہ جیکب کو دیا گیا۔
سال کی سٹائل آئیکون فوزیہ امان قرار پائیں۔ بال اور میک اپ کے لیے سنیل نواز، نئی کیٹیگری سٹائلسٹ میں یاسر ڈار اور فوٹوگرافی کے شعبے میں اشنا خان کو ایوارڈ ملا۔
ایوارڈ ملنے کے بعد اداکار فیروز خان پر سوشل میڈیا میں ردعمل کے بعد ایوارڈز کی انتظامیہ نے بتایا کہ انہیں چینلز نام بھیجتے ہیں اور  پھر یہ عوامی پسند کی کیٹیگری ہے، اس میں عوامی رائے کی بنیاد پر نامزدگیاں ہوتی ہیں اور اسی بنیاد پر ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔
لکس ایوارڈز کی ترجمان فرشتے اسلم کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی اس عمل میں مداخلت نہیں کرتے۔ لوگوں نے ووٹ کے ذریعے جس اداکار کو چن لیا اسے ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن