اسلام آباد: ملازمت چھوڑ کر آوارہ کتوں کو پناہ دینے والے ڈاکٹر

ڈاکٹر اویس غنی کے مطابق وہ ایسے کتوں کو ریسکیو کرنے اور پناہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جو زخمی ہوں اور ان کا سڑکوں پر گزارا مشکل ہو۔

ریٹائرڈ فوجی ڈاکٹر اویس غنی اپنی جمع پونجی سے اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی دیکھ بھال کا سینٹر چلاتے ہیں۔ 

ڈاکٹر غنی کے مطابق پاکستان میں کوئی سرکاری ادارہ نہیں جہاں پر جانوروں کی دیکھ بھال اور بحالی کا کام  ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف حادثات میں معذور ہونے والے جانور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر ہی مر جاتے ہیں۔

انہوں نے اس خلا کو محسوس کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آوارہ جانوروں کے لیے مرکز قائم کرنا ناگزیر ہے، جس کے بعد ڈاکٹر غنی نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پیسوں سے پانچ سال قبل جانوروں کے تحفظ کا مرکز قائم کیا۔

بقول ڈاکٹر غنی: ’ہمارے معاشرے میں کتوں کو رکھنا بڑا مسئلہ ہے۔ انہیں معاشرے میں کوئی قبول نہیں کرتا، انہیں کوئی ہاتھ تک لگانا نہیں چاہتا اور نہ ہی قریب آنے دیتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بلاشبہ ایسے جانوروں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ انہیں پالتو جانوروں کی طرح شروع میں تھوڑا سکھانا پڑھتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور پیار سے یہ سیکھ اور سمجھ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عام خیال ہے کہ آوارہ کتے خطرناک ہوتے ہیں اور انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔

’میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں ان جانوروں کے حوالے سے آگاہی پیدا کروں کہ اللہ تعالی نے انہیں بے مقصد پیدا نہیں کیا بلکہ ان کا معاشرے میں ایک کردار ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ آوارہ کتے گلی محلوں کے محافظ ہوتے ہیں اور خود ان کے ساتھ  ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اگر یہ ان کے گھر کے باہر نہ ہوتے تو شاید بڑا نقصان اٹھانا پڑتا۔

ڈاکٹر غنی کے مطابق وہ ایسے کتوں کو ریسکیو کرنے اور پناہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جو زخمی ہوں اور ان کا سڑکوں پر گزارا مشکل ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میرے پاس تقریباً سو کے قریب کتے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کلینک میں رکھا جائے اور ٹھیک ہونے پر واپس مرکز پر لے آتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ مرکز چلانے پر دوست احباب کافی تنقید کرتے ہیں۔ ’کہتے تھے کہ آپ نے جانوروں کی خاطر اپنا پروفیشن چھوڑ دیا اور ایک اچھی نوکری کو خیر آباد کہہ دیا۔‘

تاہم وہ اس تنقید کی پروا نہیں کرتے۔ بقول ڈاکٹر غنی: ’شروع میں صرف میری بیوی نے سپورٹ کیا۔ اب میرے پاس چند رضاکار ہیں، جن میں یونیورسٹی یا کالج جانے والے طلبہ شامل ہیں۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں مزدوری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے اور گھوڑوں کے لیے بھی کام کریں اور اس کام کو مزید پھیلائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات