’زومبی وائرس‘ ساڑھے 48 ہزار سال تک منجمد رہنے کے بعد دوبارہ زندہ

ماحولیاتی تپش کے باعث قطبی علاقوں کی برف پگھل رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں منجمد وائرس مستقبل میں انسانوں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے قطبی علاقوں کی برف پگھل رہی ہے (اینواتو)

نئی تحقیق کے مطابق کرہ ارض پر موجود منجمد برف پگھلنے سے متعدی ’زومبی وائرسز‘ کے نکلنے کا امکان ہے جو ہزاروں برسوں سے زیر زمین دفن ہیں۔

شمالی نصف کرہ کے ایک چوتھائی حصے کے نیچے زمین مستقل منجمد ہے، اور اب ماحولیات کے بحران کی وجہ سے اس کے پگھلنے کا امکان ہے، جس کو روکا نہیں جا سکتا۔

اس پگھلاؤ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس فضا میں خارج ہوتی ہے، جس سے زمین کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

فرانسیسی نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ سے تعلق رکھنے والے مائیکرو بائیولوجسٹ جین میری ایلمپک کی سربراہی میں کی جانے والی اس نئی تحقیق میں روسی صوبے سائبیریا میں جمی ہوئی سطحِ زمین (پرما فراسٹ) سے حاصل کیے گئے نمونوں کا جائزہ لیا گیا۔

سائنس دان ان میں سے 13 نئے وائرسوں کو زندہ کرنے میں کامیاب ہوئے، جنہیں انہوں نے ’زومبی وائرسز‘ کا نام دیا ہے۔ ان وائرسوں میں سے ایک، پرمافراسٹ کے نیچے 48 ہزار پانچ سو سال رہنے کے بعد بھی بیماری پھیلانے کا اہل ہے۔

اس تحقیق میں، جس کا جائزہ لیا جانا باقی ہے، پتہ چلا کہ پرما فراسٹ میں پائے جانے والے ’زندہ‘ وائرسوں کے بارے میں محدود تحقیق ہوئی ہے۔

ٹیم نے لکھا کہ ’اس سے یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ اس طرح کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور ’زومبی وائرس‘ لوگوں کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘

مطالعے میں جن وائرسز کی جانچ پڑتال کی گئی، وہ اکینتھ امیبا (ایک خلیے والا زندہ جاندار) کو بیمار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

محققین نے کہا کہ ’وائرس کی خوراک‘ کے طور پر اکینتھ امیبا کا استعمال ایک درست فیصلہ تھا، کیونکہ یہ نہ صرف مٹی اور تازہ اور سمندری پانی میں بلکہ تالابوں، نلکوں، نالیوں، ایکویریم، سیوریج کے ساتھ ساتھ ہائیڈروتھراپی غسل، کولنگ سسٹم، وینٹی لیٹروں، اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں بھی ’ہر جگہ‘ پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان کے وائرس کا پتہ لگانے سے کسی مخصوص ماحول میں کسی بھی دوسرے زندہ وائرس کی موجودگی کے لیے مفید ٹیسٹ مل سکتا ہے۔

اگرچہ  قدیم وائرسوں کو زندہ کرنے سے حیاتیاتی خطرہ ’نہ ہونے کے برابر‘ ہے، لیکن ٹیم نے کہا کہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ آب و ہوا کے بحران کی وجہ سے غیرمتوقع، تیز رفتار تبدیلیوں کے باعث پرمافراسٹ سے باہر آنے والا وائرس مستقبل میں جانوروں یا انسانی آبادی کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔

اس میں کہا گیا، ’امکان ہے کہ قدیم پرمافراسٹ پگھلنے سے یہ نامعلوم وائرس نکل سکتے ہیں۔ فی الحال اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ بیرونی حالات (الٹرا والٹ روشنی، آکسیجن، گرمی) میں آنے کے بعد یہ وائرس کتنی دیر تک متعدی رہ سکتے ہیں، اور کسی کو لگنے اور متاثر کرنے کا کتنا امکان ہو گا۔

’لیکن جب پرمافراسٹ پگھلنے میں تیزی آئے گی اور صنعتی منصوبوں کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ قطبی علاقوں کو آباد کریں گے، تو ماحولیاتی تپش کے تناظر میں خطرہ بڑھے گا۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت