پشاور کی عدالت نے توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنا دی

لوئر دیر کے رہائشی نے گذشتہ سال واٹس ایپ گروپ میں توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا تھا جس کی تحقیقات ایف آئی نے کی تھی۔

پھانسی کی سزا پانے والے ثنا اللہ نامی شخص پر پیغمبر اسلام کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا الزام تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے شخص کو توہین مذہب کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی ہے۔

پھانسی کی سزا پانے والے ثنااللہ نامی شخص پر پیغمبر اسلام اور مذہب اسلام کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا الزام تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل ستار نے ثنااللہ کو تعزیرات پاکستان کی توہین مذہب سے متعلق دفعات (295 اور 298)، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور انسداد سائبر کرائم قانون کے تحت موت کے علاوہ مجموعی طور پر 21 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

واقعہ کیا تھا؟

تحریک تحفظ ناموس رسالت کی جانب سے عدالتی فیصلے پر بیان میں کہا گیا ہے کہ مجرم سوشل میڈیا پر گستخانہ مواد کی تشہیر کر رہا تھا۔

 واقعے کی تفصیل کا ذکر کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ گذشتہ سال فروری میں ثنااللہ نے واٹس ایپ گروپ ’الحاد بمقابلہ اسلام‘ میں توہین رسالت، توہین امہات المومنین اور توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا۔

اس کے نتیجے میں ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے محمد سلیمان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس درخواست دائر کی اور چار اگست کو ثنااللہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 عدالتی فیصلے کے مطابق ثنا اللہ پر مقدمہ اسلام آباد میں واقع ایف آئی اے پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا اور اسے آبائی گاؤں لوئر دیر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

درخوست گزار محمد سلیمان کے وکیل ابرار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم نے واٹس ایپ گروپس میں گسخانہ مواد شیئر کیا تھا اور ایف آئی اے نے تفتیش کے بعد اس پر مقدمہ درج کیا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت میں تمام تر ثبوت پیش کیے گئے جن کی روشنی میں مجرم پر جرم ثابت کر کے سزا سنائی گئی۔

ابرار حسین نے بتایا: ’ثنااللہ کے موبائل فون سے سارا گستاخانہ مواد برآمد ہوا، جس کے بنا پر ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی