’سونے کے قلمدان رکھ کر ہاتھ کاٹ دیے‘: کے پی کے بلدیاتی نمائندے

خیبرپختونخوا میں گذشتہ برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 25 ہزار نمائندے منتخب ہوئے، لیکن ابھی تک نہ تو انہیں انتظامی اور نہ ہی مالی اختیارات دیے گئے ہیں۔

صوبے کے بلدیاتی نمائندوں نے فنڈز اور اختیارات کے لیے ہائی کورٹ میں کیس بھی دائر کر رکھا ہے (عبدالستار)

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندے صوبائی حکومت کی جانب سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اختیارات میں کمی اور فنڈز نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے مردان سٹی تحصیل کی خاتون کونسلر کوثر وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے لوکل گورنمنٹ سسٹم میں جو اختیارات تھے، اب وہ اختیارات ہم لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔

’خیبرپختونخوا کی حکومت نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے تھے کہ گراس روٹ لیول پر نمائندوں کے پاس اختیارات ہوں گے، مگر وہ اختیارات انہوں نے الیکشن کے بعد ہم لوگوں کو نہیں دیے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وجہ سے ہم نے احتجاج کیا، جس کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے صوبائی کونسل ایسوسی ایشن کے صدر اور میئر مردان حمایت اللہ مایار اور بلدیاتی حکومت کے دیگر نمائندوں  کے ساتھ میٹنگ کی، جس کے دوران وزیراعلیٰ نے مسائل حل کرنے کے لیے وقت مانگا، جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔

کوثر وسیم نے بتایا کہ اگر ہمارے مسائل حل ہوگئے اور ہمیں اختیارات مل گئے تو اچھی بات ہے اور اگر اختیارات نہیں ملے تو پھر پرامن احتجاج کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم لوگوں نے فنڈز اور اختیارات کے لیے ہائی کورٹ میں کیس بھی دائر کر رکھا ہے۔

کوثر وسیم نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ 2013 میں ویلج کونسل میں رکن رہ چکی ہیں اور اس وقت ان کے پاس پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے، میرج سرٹیفکیٹ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے کے اختیارات تھے، لیکن اس مرتبہ وہ بھی نہیں رہے۔

’اس دفعہ صوبائی حکومت نے ہمارے تمام ارکان کے سامنے سونے کے قلمدان رکھ دیے اور دکھایا کہ یہ سونے کا قلمدان ہے، مگر بدلے میں ہم لوگوں کے ہاتھ کاٹ دیے۔‘

خاتون کونسلر نے کہا کہ دسمبر 2021 کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن ابھی تک  فنڈز کی کچھ خیر خبر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فنڈز مل گئے تو ان کی یہ خواہش ہے کہ خواتین کی ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں، جس میں خواتین کے لیے ووکیشنل سینٹر کھولنا بھی شامل ہے۔

خیبرپختوںخوا کی لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر اور میئر مردان حمایت اللہ مایار نے اس حوالے سے بتایا کہ صوبے میں پچھلے سال دو مرحلوں میں مکمل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 25 ہزار بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے، جسے ایک سال مکمل ہونے والا ہے لیکن ابھی تک مقامی نمائندوں کو نہ انتظامی اور نہ ہی مالی اختیارات دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ لوکل گونمنٹ ایکٹ 2019 میں بلدیاتی نمائندوں کے پاس جو اختیارات تھے اس میں صوبائی حکومت نے سال 2022 میں ترامیم کیں، جس سے بلدیاتی نمائندوں سے کافی اختیارات واپس لیے گئے اور جو اختیارات ایکٹ میں درج تھے اسے رولز آفس میں لایا گیا تاکہ صوبائی کابینہ کے ذریعے رولز آف بزنس میں مزید ترامیم کی جاسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ تحصیل چیئرمین کے دفاترکے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ ایک سال تک تحصیل چیئرمین کے دفاتر کا اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل 32، آرٹیکل 37 اور آرٹیکل 140کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ان اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا تاکہ لوگوں کی ضروریات پوری ہوسکیں اور آئین کہتا ہے کہ اختیارات کو سیاسی اور منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائے گا۔‘

حمایت اللہ کے مطابق اس سلسلے میں صوبائی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، جس میں میئرز شامل ہیں، جن کے صوبائی حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اگر صوبائی حکومت نے مسائل حل نہیں کیے تو صوبائی اسمبلی کے سامنے پورے صوبے کے بلدیاتی نمائندے احتجاج کریں گے جبکہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی رٹ دائر کی گئی ہے۔

اس حوالے سے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات، انتخابات و دیہی ترقی سردار فیصل امین گنڈاپور نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’صوبائی حکومت ضم اضلاع سمیت پورے صوبے کے بلدیاتی چیئرمینوں کے لیے تنخواہوں اور مراعات پر مبنی جامع پیکج تیار کر رہی ہے جو عنقریب منظوری کے لیے صوبائی کابینہ میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو بلدیاتی نمائندوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا پورا احساس ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یقین دلایا کہ ان کے تمام مسائل و مطالبات کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے گا۔

وزیر بلدیات کا کہنا تھا کہ ’بلدیاتی نمائندوں کے وسائل اور اختیارات میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور اس سلسلے میں فنڈز کی قلت بھی آڑے نہیں آنے دی جائے گی تاکہ وہ زیادہ دلجمعی اور جذبے کے ساتھ عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کے قابل بنیں، جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے متعلق موجودہ صوبائی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق بھی ہے۔‘

تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ بلدیاتی نمائندے ملک کی موجودہ مشکل معاشی و سیاسی صورت حال اور زمینی حقائق کا پورا ادراک و احساس کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان