ہمارا مقصد افغانستان کو پاکستان پر حملوں کا لانچ پیڈ نہ بننے دینا ہے: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کرنے سے روکنا امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس 28 فروری 2022 کو واشنگٹن میں  سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پریس بریفنگ کے دوران (اے ایف پی)

امریکہ نے پاکستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین، پاکستان پر حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنا امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو ایک پریس بریفنگ میں پاکستان سے جڑے سوال کے جواب میں کہا: ’ٹھیک ہے، ہمارا خیال ایک بار پھر یہ ہے کہ (افغان) طالبان یا تو ان وعدوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں جو انہوں نے متعدد شعبوں کے حوالے سے کیے ہیں۔ ان شعبوں میں سے ایک وہ عزم ہے جو انہوں نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے کیا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور اپنی سرحدوں سے باہر کے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے ایک لانچ پیڈ نہ بن جائے۔ ایسا نہ ہونے دینا ہمارا مفاد ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بلاشبہ ہمارا وسیع تر مقصد یہ دیکھنا ہے کہ دہشت گرد اور دیگر (طاقتیں) افغانستان کو پاکستان پر حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال نہ کر سکیں۔ یقیناً ہم نے دوسرے گروہوں کو بھی وہاں متحرک دیکھا ہے۔ آپ نے دوسروں کے علاوہ ٹی ٹی پی کا ذکر کیا۔ ہم خطے میں پاکستان سمیت اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، وہ کریں گے اور یقینی طور پر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بھی جو خطے سے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں۔‘

بقول نیڈ پرائس: ’خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے ہمارے پاس ایسی صلاحیتیں بھی ہیں، جن سے ہمیں مکمل طور پر طالبان پر انحصار نہیں کرنا پڑا۔ ہم نے ان صلاحیتوں کا مظاہرہ حالیہ مہینوں میں القاعدہ کے سابق امیر ایمن الظواہری کی ہلاکت کے ساتھ کیا۔ ہمارا عہد تھا کہ اگر ہم بین الاقوامی دہشت گردوں کو افغانستان میں دوبارہ منظم ہوتے دیکھیں گے تو ہم کارروائی کریں گے۔ ہم اس طریقے سے کارروائی کریں گے جس سے ہمارے مفادات کا تحفظ ہو۔‘

اس سوال پر کہ موجودہ صورت حال میں افغانستان پورے خطے خصوصاً پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے تو کیا امریکہ پاکستان کے ساتھ اس سکیورٹی تعاون کو بحال کر رہا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ نے معطل کر دیا تھا؟ نیڈ پرائس نے کہا: ’جیسا کہ میں نے ابھی ایک لمحہ پہلے اشارہ دیا تھا کہ پاکستان کئی حوالوں سے امریکہ کا ایک اہم شراکت دار ہے۔ ہم ان دو طرفہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم ان شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقع کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو ہمارے اور پاکستان کے لیے باہمی مفاد کے لیے اہم ہیں۔ بلاشبہ اس میں دہشت گردی کے خلاف تعاون شامل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’پاکستان کو انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام سے گرانٹ (امداد) ملتی ہے۔ یہ پروگرام پیشہ ورانہ عسکری تعلیم، آپریشنل اور تکنیکی کورسز فراہم کرتا ہے جو پاکستان کی اپنی صلاحیتوں کو خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط بناتا ہے، چاہے وہ بغاوت کو روکنا ہو یا دہشت گردی کو کچلنا۔ نیز یہ کورسز ادارہ جاتی صلاحیت اور وسائل کے انتظام کو بہتر بناتے ہیں۔ یہ پروگرام دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کے لیے جاری ہے۔ یہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کو مستحکم کرتا ہے۔‘

سابق سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کو پاکستان کا سیکریٹری خارجہ تعینات کیے جانے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے (عمران خان کے الزامات کے حوالے سے) ان جھوٹی اور من گھڑت افواہوں کی مسلسل تردید کی ہے۔ ہمارا مفاد صرف پاکستانی عوام اور پاکستان کے آئینی نظام کے مفاد میں ہے۔ ہم کسی ایک امیدوار یا کسی ایک شخصیت کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے۔ ہم جس کے حق میں ہیں وہ پاکستان کا آئینی نظام ہے۔‘

پاکستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے رجحان اور واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان واقعات میں اکثر اوقات سکیورٹی اہلکاروں، ان کی گشت پر مامور گاڑیوں اور پولیس تھانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

دوسری جانب نیڈ پرائس نے افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے ایک ملزم کو سرعام سزائے موت دیے جانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’مایوس کن‘ قرار دیا۔

 صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم نے یہ پریشان کن ویڈیوز دیکھی ہیں جو حالیہ دنوں میں آن لائن گردش کر رہی ہیں۔‘

نیڈ پرائس کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان 1990 کی دہائی کے دوران اپنے جابرانہ اور قدامت پسندانہ رویے کی سمت واپس جانا چاہتے ہیں۔ یہ تب بھی تمام افغانوں کے عزت کے خلاف تھا یہ اب بھی تمام افغانوں کی عزت کے خلاف ہے۔‘

(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین، مترجم: عبدالقیوم شاہد)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا