افغان طالبان کی اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی سر عام سزائے موت

افغان طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ سزائے موت پانے والے شخص نے ماضی میں ایک شخص کو چاقو سے قتل کیا تھا

طالبان کی سکیورٹی فورسز کے اہلکار جلال آباد میں 6 دسمبر 2022 کو ایک چیک پوائنٹ پر کھڑے ہیں (اے ایف پی فائل)

طالبان کا کہنا ہے کہ کہ ایک افغان کو شہری کو قتل کا جرم ثابت ہونے کے بعد بدھ کو سر عام سزائے موت دی گئی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ طالبان کی پہلی عوام کے سامنے دی جانے والی سزائے موت ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ جیسے اسلامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ہم وطنوں کے سامنے عوامی سطح پر قصاص جیسے حکم کا اطلاق کریں۔‘

گذشتہ ماہ طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو اسلامی قانون کے ان پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جن میں سرعام پھانسی، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد سے عدلیہ کی جانب سے کئی ’مجرمان‘ کو سرعام کوڑے مارے گئے ہیں لیکن صوبے فرح کے دارالحکومت میں بدھ کو سرعام دی جانے والی پہلی سزائے موت ہے جس کا طالبان نے اعتراف کیا ہے۔

حکام کی جانب سے جاری بیان میں سزائے موت پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ ہرات کے ضلع انجیل کا رہائشی تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ مغربی صوبے فرح میں ایک شخص کو سزائے موت دی گئی ہے جن پر 2017 میں ایک شخص کو چاقو مار کر ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے وقت طالبان کے سینیئر حکام بھی موجود تھے۔

ترجمان نے بتایا کہ اس مقدمے کی تین مختلف عدالتوں نے تحقیقات کی اور گروپ کے پیشوا، جو جنوبی صوبہ قندھار میں مقیم ہیں، نے اس سزا کی منظوری دی۔ تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے یہ نہیں بتایا کہ اس شخص کو کیسے سزائے موت دی گئی۔

ترجمان نے بتایا کہ سزائے موت کے وقت ایک درجن سے زیادہ سینیئر طالبان موجود تھے جن میں قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور قائم مقام نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر کے ساتھ ساتھ ملک کے چیف جسٹس، قائم مقام وزیر خارجہ اور قائم مقام وزیر تعلیم بھی شامل تھے۔

دوسری جانب سر عام سزائے موت کے بارے افغان طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ سزائے موت پانے والے شخص نے ماضی میں ایک شخص کو چاقو سے قتل کیا تھا اور مقتول کی موٹرسائیکل اور موبائل بھی چوری کیا تھا۔

بیان کے مطابق: ’لواحقین کی نشاندہی پر ملزم کو گرفتار کیا گیا اور دوران تفتیش ملزم نے اعتراف جرم کیا تھا جس کے بعد عدلیہ نے باقاعدہ تحقیقات کیں اور اس کے بعد سزائے موت سنائی گئی۔‘

’سزائے موت پر عمل درامد کے لیے درخواست طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کو بھیجی گئی اور انہوں نے بھی اپنے طور اس مقدمے کی تحقیق اور علما سے مشاورت کے بعد عوام کی موجودگی میں سزائے موت دینے کی توثیق کی اور آج اسی سزا پر عمل درامد کیا گیا۔‘

ترجمان امارت اسلامیہ افغانستان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج کے قصاص کے واقعے میں مقتول کے والد نے قاتل کو کلاشنکوف کے فائر کر کے بیٹے کا قصاص لیا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی ویڈیوز وائرل ہیں جو بالکل خلافِ حقیقت ہیں۔‘

ادھر مقتول کی والدہ کا کہنا ہے کہ علما اور امارت اسلامیہ کے رہنماؤں نے بارہا ان سے معافی کی درخواست کی۔ ’کل رات بھی علما کا ایک جرگہ ہمارے ہاں پہنچا مگر میں نے معاف نہیں کیا۔‘

یہ واقعہ ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں کئی صوبوں میں چوری اور ’زنا‘ جیسے جرائم میں ملوث مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان نے گذشتہ ماہ طالبان حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں سرعام کوڑوں کی سزا کو فوری طور پر روک دیں۔سرعام کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کے واقعات طالبان کے سابقہ دور حکومت میں عام تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا