وادی نیلم کے گاؤں میں ٹی بی کا مرض کیوں پھیل رہا ہے؟

جاگراں میں نجی سکول کے دو اساتذہ اور دو طلبہ کی ٹی بی کے باعث ہلاکت سمیت 11 کیسز سامنے آنے کے بعد تشویش، حکام کی جانب سے سکریننگ کرنے کی سفارش

لگ بھگ پانچ ہزار آبادی والے علاقے جاگراں میں گذشتہ چار سالوں میں ٹی بی کی دو خطرناک اقسام کے 11 کیس سامنے آئے، جن میں سے سات افراد کی موت واقع ہوچکی ہے (تصویر: جلال الدین مغل)

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے جاگراں میں ایک نجی سکول کے معلم کی جانب سے ٹی بی کے مرض کے باعث دو اساتذہ اور دو طلبہ کی ہلاکت کے دعوے کے بعد حکام نے علاقے میں اس مرض کے پھیلاؤ، علاج معالجے میں ناکامی اور تشویشناک حد تک بلند شرح اموات کی وجہ جاننے کے لیے ٹی بی کی سکریننگ شروع کرنے کی سفارش کی ہے۔

ضلع نیلم کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جانب سے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو لکھے گئے خط میں تصدیق کی گئی ہے کہ لگ بھگ پانچ ہزار آبادی والے علاقے جاگراں میں گذشتہ چار سالوں میں ٹی بی کی دو خطرناک اقسام کے 11 کیس سامنے آئے، جن میں سے سات افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق علاج معالجے میں ناکامی کی شرح 60 فیصد سے زائد ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ نجی سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی ہلاکت بھی ٹی بی کے باعث ہی ہوئی۔

مذکورہ نجی سکول کے ٹی بی سے متاثرہ افراد میں دو اساتذہ اور وہاں زیرِ تعلیم تین سگے بھائی شامل تھے، جن میں سے اب تک دو کا انتقال ہوچکا ہے جبکہ تیسرے کا علاج جاری ہے۔ اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی عمریں 8 سال سے 25 سال کے درمیان ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ضلع نیلم کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر غلام نبی نے تصدیق کی کہ ’جاگراں کہ دو گاؤں میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد ضلع کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہ کیس ایک چھوٹے علاقے میں کلسٹر کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ہلاکتوں کا معاملہ کیا ہے؟

گذشتہ دنوں گوریال جاگراں میں قائم ایک نجی سکول کے معلم عدنان یوسف اعوان نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ان کے سکول میں پڑھانے والے دو اساتذہ اور دو طلبہ ٹی بی کے مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ اس مرض کی روک تھام کے لیے متعلقہ حکام کو کئی مرتبہ خطوط بھیج چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے عدنان یوسف کا کہنا تھا کہ ’سکول میں یہ مرض ممکنہ طور پر ایک معلم کے ذریعے پھیلا جو مظفرآباد میں دورانِ تعلیم اس مرض کے شکار ہوئے۔ تاہم سکول میں پڑھانے سے قبل ڈاکٹروں نے متاثرہ معلم کو علاج کے بعد مکمل طور پر صحت یاب قرار دے دیا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’کچھ عرصے بعد وہ پھر بیمار ہوئے، ان کا دوبارہ علاج شروع کروایا گیا مگر اسی دوران ان کی موت واقع ہوگئی۔ اسی عرصے میں ایک اور معلم اور تین طلبہ بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے۔ ان میں سے ایک کے علاوہ سب کی موت ہو چکی ہے۔ ایک طالب علم کا ابھی علاج چل رہا ہے۔‘

کیا اعدادوشمار واقعی تشویشناک ہیں؟

ماہرین کے بقول پانچ ہزار کی آبادی کے علاقے میں کلسٹر کی صورت میں ٹی بی کے کیسز کا سامنے آنا اور پھر اس میں سے 60 فیصد سے زائد مریضوں کی ہلاکت تشویش ناک ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی علاج معالجے میں دانستہ و نادانستہ لاپرواہی اور مرض کے دوران احتیاطی تدابیر سے لاعلمی ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالعزیز ڈار کے مطابق: ’ٹی بی کا مرض قابل علاج ہے اور ہمارے ہاں وافر مقدار میں دوائیں بھی موجود ہیں۔ اس مرض کا علاج چونکہ چھ ماہ سے ڈیڑھ سال تک چلتا ہے تو کئی مریض اور ان کے لواحقین تنگ آکر علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں لیکن علاج میں  دانستہ یا نادانستہ طور پر لاپرواہی یا تاخیر کی وجہ سے  مریض پر ادویات اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔‘

اگرچہ ڈاکٹر عبدالعزیز ڈار کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹی بی کی تشخیص اور علاج کے لیے درکار تمام سہولیات موجود ہیں، تاہم انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ٹی بی کی دو اقسام ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ ٹیوبرکلوسز (ایم ڈی آر) اور ایکسٹینسیو ڈرگ ریزیسٹنٹ ٹیوبرکلوسز (ایکس ڈی آر ) کے علاج کی سہولت ضلع نیلم کے کسی ہسپتال میں موجود نہیں۔

دستاویز کے مطابق ایم ڈی آر کے مریضوں کا علاج مظفرآباد کے عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ہوتا ہے جبکہ ایکس ڈی آر کے مریضوں کو علاج کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں جانا پڑتا ہے۔

جاگراں میں یہ مرض کیسے پھیلا؟

جس علاقے میں ٹی بی کے مرض سے ہلاکتیں ہوئی ہیں، وہ وادی نیلم میں واقع ایک خوبصورت ذیلی وادی ہے جہاں گرمیوں کے موسم میں بڑی تعداد میں سیاح بھی آتے ہیں۔

حکام کو شبہ ہے کہ یہ مرض کسی دوسرے علاقے سے یہاں منتقل ہوا اور علاج معالجے میں تاخیر اور لاپرواہی کے باعث مہلک ثابت ہوا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ احتیاطی تدابیر سے لاعلمی یا انہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ مرض ایک سے دوسرے افراد میں منتقل ہوا۔

ٹی بی سے ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے اس علاقے کا دورہ کرنے والی محکمہ صحت کی ٹیم میں شامل ایک اہلکار تنویر حسین کے بقول جاگراں کے لوگ محنت مزدوری اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے علاقوں میں جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ ٹی بی کے جراثیم کسی مزدور یا طالبعلم کے ذریعے یہاں پہنچے اور پھر احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کی وجہ سے دوسرے افراد بھی متاثر ہوئے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جاگراں دور دراز علاقہ ہے اور یہاں لوگوں کی شرح آمدن کافی کم ہے۔ علاج معالجے کے لیے مریض کو مظفر آباد یا اسلام آباد لے کر جانا کافی مشکل ہے۔ کئی لوگ آنے جانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور ہسپتال دور ہونے کی وجہ سے بروقت علاج نہیں کروا سکتے، جس کی وجہ سے یہ مرض مہلک ثابت ہو  رہا ہے۔

وادی نیلم کے علاقے جھمبر میں پاکستانی فوج کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال میں تعینات رہنے والے ایک ڈاکٹر نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کی تعیناتی کے دوران جاگراں کے علاقے سے ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا مریض آتا تھا جس میں ٹی بی کی علامات موجود ہوتیں، تاہم اس دعوے سے متعلق کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم ایسے مریضوں کو تشخیص اور علاج کے لیے متعلقہ ہسپتالوں میں بھیجتے تھے تاہم ان میں سے کئی ایک مظفرآباد یا اسلام آباد جانے کے بجائے وہیں علاج کروانے کی ضد کرتے تھے۔‘

ٹی بی یا تب دق کی بیماری کیا ہے؟

اس مرض کی علامات میں مسلسل ہلکا بخار، وزن کا کم ہونا، پسینہ آنا اور اگر پھیپھڑے متاثر ہوں تو بلغم کا آنا شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسی کسی بھی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

ٹی بی کا مرض انسانی جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کر سکتا ہے۔ پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے تاہم یہ مرض ہڈیوں اور بعض اوقات دماغ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بروقت تشخص، مناسب علاج اور احتیاطی تدابیر سے ٹی بی کے مرض سے بچاؤ ممکن ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی کا علاج مکمل طور پر کروانا ضروری ہے کیونکہ اگر اس کا علاج نامکمل رہ جائے تو ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو سکتی ہے اور اس صورت میں یہ مرض جان لیوا ہو سکتا ہے۔

ٹی بی ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے، خاص طور پر بلغم کے اخراج سے ٹی بی کے جراثیم کسی دوسرے شخص کو بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جن گھروں میں ٹی بی کے مریض ہوں انہیں الگ کمرے میں رکھنا ضروری ہے۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفسیر ڈاکٹر غلام نبی کے بقول ’فوری طور پر اس علاقے میں سکریننگ کروائی جا رہی ہے تاکہ جن مریضوں میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں ان کا بروقت علاج معالجہ شروع ہو سکے۔ اس کے علاوہ ہم سکولوں، مساجد اور مقامی تنظمیوں کے ذریعے لوگوں میں ٹی بی کے متعلق آگاہی، اس کے علاج کے طریقہ کار اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بھی معلومات پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ٹی بی کی تشخیص اور علاج معالجے کی جو سہولیات اس علاقے میں میسر نہیں، ان کی فراہمی کے لیے اعلیٰ حکام کو تحریک کی جا رہی ہے کیونکہ گھر کے قریب علاج کی سہولت میسر ہوگی تو لوگ علاج میں تاخیر نہیں کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت