انسان اور جنگلی حیات کا تصادم

صاف بات یہ ہے کہ جانور ہمارے علاقے میں نہیں بلکہ انسان جانوروں کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔

چھ مئی، 2020 کو لی گئی اس تصویر میں اسلام آباد وائلڈ لائف گارڈ عمران مارگلہ ہل نیشنل پارک پر ہائیکنگ ٹریل پر جانوروں کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لیے کیمرہ چیک کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز میں اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے حال ہی میں ٹریکنگ کرنے والوں میں خاصی مقبول ٹریل نمبر تین کو بند کر دیا تھا۔

اس ٹریل کو بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب قریب ہی واقع سیدپور گاؤں کے قریب میں چند تیندوے آگئے اور گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کی سربراہ رینا خان نے تو دو سال قبل ہی کہا تھا کہ مارگلہ نیشنل پارک میں پانچ تیندووں کی نشاندہی کی گئی جو اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ نیشنل پارک کا ایکو سسٹم وائلڈ لائف کے لیے مثبت ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے چار اور چھ نمبر ٹریلز پر لوگوں کو متنبہ کیا تھا کہ اس دونوں ٹریلز پر اکیلے مت جائیں بلکہ گروپ کی صورت میں جائیں اور اس کے علاوہ سورج غروب ہونے کے بعد مت جائیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ تیندوے دن کے وقت سوتے ہیں اور رات کو شکار کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ چار نمبر ٹریل نئی کھلی ہے اور جنگلی جانوروں کو کچھ وقت لگے گا کہ وہ اس علاقے میں انسانوں کی موجودگی کے عادی ہوں۔

لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان کے مطابق یہ بات تو صاف ہے کہ جانور ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ انسان جانوروں کے علاقے میں داخل ہو رہے  ہیں۔ 

دو صدیوں سے انسان کرہ ارض کے ہر خطے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور تقریباً سارے ہی ماحولیاتی نظام پر اثر انداز ہورہے ہیں

اس طرح انسانی سرگرمیوں کےآغاز سے کرہ ارض اس دور میں داخل ہو گئی جہاں آب و ہوا اور ماحولیاتی نظام انسانی سرگرمیوں سے متاثر ہونا شروع ہوئیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے جانوروں کے مسکن پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

انسانی قبضے کے خلاف اور جانوروں کے مساکن کو بچانے کے لیے دنیا کا 13 فیصد حصہ حفاظتی علاقے کے طور پر مختص ہے لیکن زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں کئی جنگلی حیات کے مساکن ان مختص کیے گئے علاقوں سے باہر ہیں جہاں اکثر وہ اور انسانی آبادی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ 

جنگلی حیات اور انسان کا تصادم کی شرح کا براہ راست تعلق انسانی آبادی سے ہے۔

یعنی انسانی آبادی کے بڑھنے سے اور سبزہ زار ختم ہونے سے، جو ممکنہ طور پر جنگلی حیات کا مسکن ہے، سے اس تصادم میں اضافہ ہو سکتا ہے اور شدت بھی آ سکتی ہے۔ 

انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان تصادم عالمی مسئلہ ہے لیکن ایسے واقعات ایشیا اور افریقہ میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں لوگ زراعت کرتے ہیں اور مویشی پالتے ہیں۔

عالمی اندازے کے مطابق ہر سال 10 سے 15 فیصد فصل جننگلی جانور کھا جاتے ہیں۔

قومی سطح پر یہ اعداد و شمار خاص نہیں ہیں لیکن ان لوگوں کے کے لیے بہت زیادہ ہیں جن کی روزی ان کی زراعت سے وابستہ ہے لیکن جب فصل یا مویشی پر حملہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ان جنگلی جانوروں کے لیے غصہ مزید بڑھ جاتا ہے اور پھر ان کو دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پاکستان میں انسان اور جنگلی جانروں کے تصادم کے حوالے سے تحقیق بہت کم کی گئی ہے اور وہ تحقیق بھی ملک کے شمالی علاقوں تک محدود ہے جہاں پر جنگلی حیات زیادہ ہے اور انسانی آبادی کم۔  

دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسان اور حیوان کے درمیان تصادم میں سب سے بڑی وجہ خطرے کا احساس ہے چاہے وہ اصل میں موجود ہو یا نہ ہو۔

خطرے کا احساس زیادہ تر ماضی کے واقعات کے حوالے سے پائے جاتے ہیں اور اسی لیے انسان اس کو خطرہ سمجھتے ہوئے مارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جنگلات ہماری روز مرہ کی زندگی سے لے کر وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں کا اہم جزو ہے۔

جنگلی حیات کو خوراک سے لے کر ان کی پناہ گاہ تک جنگلات کی اہمیت کو جتنا زیادہ اجاگر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔

لیکن اس کے باوجود ہم جنگلات کی تباہی کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہے ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کُل رقبے کے 33 فیصد تھے جو 1990 میں کم ہو کر محض 3.3 فیصد رہ گئے۔

2015 میں اس سے بھی مزید کم ہو کر 1.9 فیصد رہ گیا۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو ان کے مسکن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کرے اور دوسرا لوگوں کو ان کے مسکنوں اور ان سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔

ان دونوں کاموں کے لیے حکومت کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ