بڑھتے جائیے، راستے میں تبدیلی بھی آتی رہے گی

1973 کا آئین بے شک ایک خاص ماحول میں مرتب ہوا لیکن کیا اکثر ریاستوں میں ایسے اوقات میں حالات عمومی ہوتے ہیں؟

تصویر: کریٹیو کامن

آصف محمود صاحب کا انڈپینڈنٹ اردو میں چھپنے والا کالم ’آئین کی تکریم ہی نہیں ترمیم بھی ضروری ہے‘ نظر سے گزرا جس کے موضوع  نے دلچسپی پیدا کی۔ دراصل ملکِ خداداد میں آئین پہ بحث کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پھر بات ترمیم کی ہو تو ویسے ہی لازم ہے کہ ایسی کوشش کو پڑھا جائے۔

لیکن کالم پڑھنے کے بعد اس کے اندر پاکستان کے آئین کے بارے میں جو سوچ حقیقی مزاج میں بیان کی گئی ہے اس کو حقیقت اور تاریخ سے متضاد پایا۔ چنانچہ ایک جوابی کالم کا ارادہ کیا تاکہ آئین کے موضوع پہ ایک اور بیانیہ بھی قارئین کے سامنے رکھا جا سکے۔

1973 کا آئین بے شک ایک خاص ماحول میں مرتب ہوا لیکن کیا اکثر ریاستوں میں ایسے اوقات میں حالات عمومی ہوتے ہیں؟ آج کی دنیا میں جن ممالک میں جمہوری نظام  رائج ہے وہاں سب سے پرانا آئین برطانیہ کا ہے۔

کیا 1215 میں رنی میڈ کے میدان میں باغی اُمرا نے جب برطانوی بادشاہ جان سے میگنا کارٹا (جو برطانوی آئین کی بنیاد ہے) پہ دستخط کروائے تو حالات عمومی تھے؟ امریکہ کے آئین بنانے والے بھی ایک خاص ماحول اور نفسیات کا شکار تھے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات ہے نہیں بلکہ ایک فطری عمل ہے۔

یہ کہنا کہ چوں کہ صدمے کی کیفیت طاری تھی اس لیے رجحان متفقہ آئین بنانے پہ تھا سو بن گیا صریحاً ایک غلط تشریح ہے۔ آئین کی بنیادی تعریف ہی ایک ایسے عمرانی معاہدے کی ہے جو باہمی اتفاق پہ قائم ہو۔ بنانے والوں کو بھی اس کا ادراک تھا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہونی چاہیے سو ترمیم کا نہ صرف طریقہ کار آئین میں متعین ہے بلکہ مختلف ادوار میں 26 بار ترمیم کی کوشش بھی کی گئی جن کا منہ بولتا ثبوت 23 ترامیم آئینِ پاکستان کا حصہ بھی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا مصنف ان کو لانے والوں اور پاس کرانے والوں کا بھی ذکرِ خیر کر دیتے۔

جس سوال نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ مصنف کا یہ دعویٰ تھا کہ ایک ایسی اسمبلی جس کے انتخابات متحدہ پاکستان کی بنیاد پر ہوئے ہوں وہ کیوں کر آئین بنا سکتی ہے؟ بطریقہِ مصنف نیا مینڈیٹ لینے کے بعد نئی اسمبلی یہ فریضہ انجام دیتی تو مسنون ہوتا۔

انتخابات کل بھی اور آج بھی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں جہاں حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر پانچ سال کے لیے اپنے نمائندے چنتے ہیں جو انہوں نے 1970 کے انتخابات میں چن لیے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ان ارکان اسمبلی کی وقعت اور نفسیاتی معیار پہ سوال اٹھا کر آئین کے عمل کو مشکوک بنانا صریحاً غلط ہے۔

اگر انتخابات کرا بھی لیے جاتے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کے نتیجے میں ایسے فاضل ارکان کہاں سے ڈھونڈ لیے جاتے جن کی نفسیات پہ سانحہ مشرقی پاکستان کا قطعاً کوئی اثر نہ ہوتا؟

پنڈت نہرو کانگریس کے صدر تھے۔ آپ تقسیم ہندوستان کے شدید مخالف اور اس کے ہونے کو ایک سانحہ سمجھتے تھے۔ پھر 1946 کے انتخابات کی بنیاد پر تقسیم بھی ہوئی، لاکھوں بےگھر ہوئے، تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی، قتلِ عام کا وہ بازار لگا  بالخصوص پنجاب کی دھرتی پر کہ لاکھوں لقمہ اجل بن گئے۔

پنڈت نہرو انہی انتخابات کی بنا پر جو متحدہ ہندوستان کہ اندر ہوئے، وزیر اعظم ہندوستان بنے۔ انہوں نے آئین اسی اسمبلی سے پاس کرایا اور تب کا وہی آئین چل رہا ہے۔ ہندوستانی ہزار اعتراض  بھی کرتے ہیں، ترامیم بھی کر ڈالی ہیں لیکن بنانے والوں کے طریقے، سوچ، قابلیت اور آئین کی افادیت پر سوال اٹھا کر وقت برباد نہیں کرتے بلکہ آگے چلنے پہ یقین رکھتے ہیں۔

غور کیا جائے تو ہمارے بنگالی بھائی جو دسمبر کے اسی مہینے میں اپنا راستہ ہم سے جدا کر گئے، انہوں نے بھی نئے انتخابات کرانا مناسب نہیں سمجھے۔ وہی ارکان جن کو 1970 کے متحدہ پاکستان میں پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے عوام نے منتخب کیا تھا، انہی نے شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں ایک سال کے عرصے میں آئین بنا ڈالا۔ شاید بنگالی بھائی بھی آگے بڑھنے پہ یقین رکھتے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں بہت آگے بڑھ بھی چکے ہیں۔

آئین کی شق 62 اور 63 کے حوالے سے طنزاً کہا گیا کہ ان کی تشریح ہی نہیں ہو پا رہی یعنی آئین بنانے والوں میں یہ قابلیت نہ تھی سو اب مسائل آ رہے ہیں!

اس بات کا جواب تو خیر معزز سپریم کورٹ نہیں دے پا رہی تو یہ ادنیٰ وکیل کیا دے پائے گا۔ اس کی آئینی تشریح بھی پینسل کی طرح بار بار گڑھی جا رہی ہے۔

دعا بس یہ ہے کہ پینسل ختم ہونے سے پہلے کوئی ایک دائمی تشریح آ جائے۔ لیکن بصد احترام دوش پینسل گھڑنے والوں کا بھی تو ہوا نا!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دنیا میں کوئی بھی آئین شاید ایسا نہ ہو جس کہ اندر ابہام نہ رہ جائیں۔ دنیا میں ہر سپریم کورٹ کہ سامنے آئینی تشریح کے سوالات عمومی طور پہ رکھے جاتے ہیں لیکن اس سے یہ سوچ عام طور پر جنم نہیں لیتی کہ اب نیا آئین بنانا چاہیے۔

پھر لکھا گیا کہ آئین میں ایسے منصب رکھے گئے ہیں جو تاج برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کی یاد دلاتے ہیں۔ اس حد تک تو میں اس بات سے متفق ہوں کہ ان عہدوں کی مراعات ہماری غربت سے مطابقت رکھنی چاہییں اور اس میں سوائے ان عہدوں پہ بیٹھے افراد کے سوا سب ایک ہی سوچ کہ حامل ہیں۔

لیکن قانونی طور پہ ان عہدوں (صدر، گورنر) کا ایک مقصد ہے اور وہ ضروری ہے۔ پاکستان مختلف اکائیوں پر قائم ایک فیڈریشن ہے اور یہ عہدے بہرحال اس فیڈریشن کے نمائندے ہیں جو منتخب نمائندے نہیں ہو سکتے۔

اگر کوئی نمائندہ اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی اور حلف سے روگردانی کرے تو اس میں آئین کے اندر خرابیاں ڈھونڈنے سے مسائل حل نہ ہوں گے بلکے اور پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔

جالب صاحب نے کیا خوب کہا تھا:

عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں!

ہمارے مسائل تو شاید بےشمار ہوں لیکن ایک عادت ان مسائل کی جڑ ہے کہ ہم ماضی سے نکل نہیں پاتے!

اپنے مسائل کا قصوروار ماضی میں ڈھونڈتے ہیں اور الزام کے تعین کے بعد سکھ پا جاتے ہیں کہ گویا مسئلہ ہی ختم ہو گیا۔ آگے بڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

شاید جن کے پاس زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور امنگ نہ ہو وہ پیچھے ہی دیکھتے رہتے ہیں اور بحیثیت قوم یاد ماضی  کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ علاج غم ہر گز نہیں، چنانچہ عرضِ مقصد فقط یہ ہے کہ آئین حاضر ہے لاکھ ترمیم کیجیے مروجہ طور طریقے سے۔ اس کی بہتری کے بارے میں بات بھی کیجیے۔ یہ نہ صرف ہر شہری کا حق ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے، پر ساتھ یہ بھی بتائیے کہ اس میں لکھا ہے کہ جیسا تیسا ہے، اس کی اطاعت بھی فرض ہے اور اقوامِ عالم پہ نظر دوڑائیے گا تو یہی سبق ملے گا کہ آئینی راستہ ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

بڑھتے جائیے، راستے میں تبدیلی بھی آتی رہے گی۔ کیا ضروری ہے کہ یدِ بیضا پہ نظر ٹکائے جمود میں رہیں کہ جب تک سب اچھا نہیں کر لیتے، آگے نہ بڑھیں گے!

مدثر لطیف عباسی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور اسٹیٹ کونسل بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ معروف لا فرم لیگل فائیو کے پارٹنر ہیں۔ پانچ سال تک ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بطور اینکر پرسن بھی وابستہ رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ