چیئرمین حق دو تحریک کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے: وزیر داخلہ

حق دو تحریک کے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ احتجاج  کررہے ہیں اور فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچستان کی حق دو تحریک کے سربراہ ہیں (تصویر: مولانا ہدایت الرحمٰن ٹوئٹر ہینڈل)

وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے واقعے کی ذمہ داری حق دو تحریک کے ’مشتعل‘ مظاہرین پر ڈالی ہے اور پولیس اہلکار کے جانی نقصان کی مذمت کی ہے۔

منگل کو جاری کیے جانے والے بیان میں وزیر اعلی بلوچستان نے متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔

وزیر اعلی بلوچستان کا کہنا ہے کہ ’ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔‘

اُدھر وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ چیئرمین حق دوتحریک کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔

حق دو تحریک نے اپنے ٹوئٹر بیان میں اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پولیس کانسٹیبل کی موت خود پولیس کی ہی گولی سے ہوئی ہے۔

گوادر میں حق دو تحریک کے رہنماؤں کی گرفتاری اور کارکنوں پر ’تشدد‘ کے خلاف آج  دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا جس کے دوران کوسٹل ہائی وے مکمل طور پر بند رہی اور پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں کے دوران چند افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

جان سے جانے والے پولیس اہلکار کون تھے؟

جان سے جانے والے پولیس اہلکار کی شناخت یاسر کے نام سے ہوئی ہے جن کی عمر 21 برس تھی اور انہوں نے ایک برس قبل پولیس میں ملازمت شروع کی تھی۔

یاسر کے چار بھائی ہیں جن میں سے دو ان سے بڑے اور دو چھوٹے ہیں۔ ان کی والدہ کا انتقال ہوچکا ہے اور والد محکمہ زراعت میں بیلدار کے طور پر ملازم ہیں۔

حق دو تحریک کے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ احتجاج  کررہے ہیں اور فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اس دوران علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند رہی۔

ٹویٹ میں لکھا گیا ہے کہ گوادر میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے اور سی پیک کے مرکز گوادر میں اپنے مطالبات کے حق میں حق دو تحریک کا دھرنا 60 دنوں سے جاری تھا جس کے دوران انہوں نے پانچ روز قبل گوادر پورٹ روڈ کو بند کرکے دھرنا دیا تھا۔

مظاہرین سے ہفتے کو صوبائی وزیر داخلہ نے مذاکرات کیے تھے اور حق دو تحریک کی جانب سے قائم کمیٹی سے بات چیت کی تھی تاہم اس کا اور مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور دھرنا جاری رہا۔

اتواراور پیر کی شب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے حق دو تحریک کےدھرنے کو ختم کرکے ان کے ٹینٹ اکھاڑ دیے اور حسین واڈیلا سمیت متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

اس کارروائی کے بعد منگل کو صورتحال کشیدہ رہی اور کارکنان کا مختلف علاقوں میں احتجاج جاری رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر ضلع گوادر کے علاقے پسنی کے ایک صحافی ساجد نور نے بتایا کہ گوادر میں احتجاج کی خبریں آرہی ہیں۔ اورماڑہ زیر پوائںٹ کو منگل کو بھی بند کیا گیا ہے جبکہ پسنی میں تحریک کے کارکنان نے دکانیں بند کرا دی ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کی ایک ویڈیو جاری ہوئی ہے جس میں وہ حکومتی کارروائی کے بارے میں تفصیل بتا رہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمارے دھرنے پر دھاوا بولا اور ہمارے سواریوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔ جس کی مذمت کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے قومی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ نام نہاد ترقی کی مزاحمت کریں گے۔ گوادر پولیس نے ہماری خواتین کارکنوں پر تشدد کیا۔‘

مولانا نے کہا کہ ’اگر ہم لوگ غلط ہیں تو سوشل میڈیا اور موبائل نیٹ ورکس کو کیوں بند کردیا گیا ہے۔ میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ قید و بند اور سزائیں ہمارا راستہ نہیں روک سکتے ہیں۔‘

حق دو تحریک کے سربراہ نے کہا کہ ’ہم آئندہ دنوں میں اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو عوام کے سامنے لائیں گے۔‘

دوسری جانب تربت کے صحافی اسد بلوچ نے بتایا کہ تربت انتظامیہ نے حق دو تحریک کے آرگنائزر یعقوب جوسکی کے آئل ڈپو کو بند کرکے تین کارکنوں کے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔

حق دو تحریک ضلع گوادر میں منشیات کے خاتمے، لاپتہ افراد کی بازیابی اور ٹرالر مافیا کے خلاف کارروائی سمیت دیگر مطالبات کے حق میں مظاہرہ کر رہی ہے۔

حکومتی موقف

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے کوئٹہ پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مولانا ہدایت الرحمن نے حکومتی وفد سے مذاکرات میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے حق دو تحریک سے خود مذاکرات کیے لیکن مولانا ہدایت الرحمن نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے دھرنا جاری رکھا۔ دھرنے کی وجہ سے سی پیک شاہراہ بند تھی جس سے کام متاثر ہورہا تھا۔ کسی کو بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔‘

بلوچستان پولیس کا موقف

بلوچستان پولیس نے گوادر میں حق دو تحریک کے دھرنے کے حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حق دو تحریک کے دھرنے ایک مشتعل ہجوم کی شکل اختیار کرلی ہے جس نے ڈی آئی جی آفس گوادر پر پٹرول بم پھینکے اور متعد د پولیس اہلکاروں کو شدید زخمی کیا، پولیس نے صوبائی حکومت کی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے گوادر میں امن و امان بحال کرنے کے لیے اپنا ہرممکن کردار نبھائے گی۔‘

ذرائع ابلاغ کو محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں بلوچستان پولیس نے کہا کہ گوادر میں حق دو تحریک کا دھرنا گزشتہ کئی روز سے جاری تھا اور اس دوران پولیس نے عوام کے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے دھرنے کے شرکا کو ہرممکن سکیورٹی فراہم کی۔

پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز دھرنے کے شرکا کی جانب سے گرفتار رہنماﺅں کی رہائی کے لئے ڈی آئی جی آفس میں مذاکرات ہوئے تاہم حق دو تحریک کے رہنماﺅں نے باہر جاتے ہی ڈی آئی جی آفس پر دھاوا بول دیا۔

ترجمان کے مطابق: ’پولیس نے صوبائی حکومت کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کے لیے جو کارروائی کی ہے اس کا مقصدر گوادر کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان