بالٹی سے شاور اور شاور سے بالٹی کا سفر

لوگوں کا سال جنوری سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارا بالٹی سے شروع ہوتا ہے اور بالٹی پر ختم ہو جاتا ہے۔

18 ستمبر، 2016 کو اڑی میں ایک خاتون اپنے بچے کو نہلا رہی ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے 

لوگوں کا سال جنوری سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارا بالٹی سے شروع ہوتا ہے اور بالٹی پر ختم ہو جاتا ہے۔ 

ہم سال ختم ہونے سے پہلے ہی بالٹی اور دیگچہ سنبھال لیتے ہیں۔ بالٹی میں پانی بھرا۔ پھر وہ پانی دیگچے میں انڈیلا اور اس دیگچے کو چولہے پر چڑھا دیا۔

پھر پورا دن اس پانی کے ابلنے کا انتظار کیا اور جب وہ اس قابل ہوا کہ اس سے نہایا جا سکے تو نہا لیا۔

جس دن نہ نہا سکے اس دن سر پر دوپٹہ چڑھا لیا کہ ہمارے بال ایک دن سے زیادہ اپنا حسن ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔ 

پچھلے دنوں اسی حالت میں ایک زوم میٹنگ نمٹائی۔ اس کی تصویر فیس بک پر ڈالی تو ایک دوست کا پیغام آیا کہ خیر ہے، سر پر دوپٹہ۔

ہم نے کہا بہن دو دن سے گیس نہیں آ رہی۔ گیزر اور چولہا دونوں ٹھنڈے پڑے ہیں۔ بالوں کا برا حال ہے۔

شکر ہے اسلامی جمہوریہ میں رہتے ہیں جہاں کچھ ملے نہ ملے گزوں کے حساب سے اوڑھنے کے لیے دوپٹہ ضرور مل جاتا ہے۔ بس وہ اوڑھے اپنا کام کر رہے ہیں۔

نئے سال کے دو ماہ گزرتے ہیں تو ہمارا گیزر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم ایک ڈیڑھ ماہ اس کے سہارے گزارتے ہیں۔ پھر اسے سال کے آخر کے لیے بند کر دیتے ہیں۔

بالٹی اور پیڑھی بھی غسل خانے سے نکال کر ایک کونے میں رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ ماہ تک ہمارے غسل خانے میں شاور کا راج رہتا ہے۔ ہم جب چاہیں نہاتے ہیں۔

یہ سال کے وہ مہینے ہوتے ہیں جب ہم قدرے صاف ستھرے نظر آتے ہیں۔ ان مہینوں میں پڑنے والی گرمی اور سڑکوں پر اڑنے والی دھول ہمارا حال پھر سے بے حال کر دیتی ہے۔ ہم گھر آ کر پھر سے شاور لے لیتے ہیں۔

وہ مہینے گزرتے ہیں تو پھر سے گیزر کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس گیزر کی رونق مدھم ہوتے ہوتے بالکل غائب ہو جاتی ہے۔

سوئی ناردرن گیس کمپنی کو ہمارا گیزر اور چولہا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہم رہتے بھی پنجاب میں ہیں۔ وہ ہر سال پنجاب اور خیبر پختونخوا میں دل کھول کر گیس کی لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے اوقات میں گیس ضرور فراہم کرتی ہے۔ ان کا گمان ہے کہ ہماری طرف سردیوں میں کھانا ہی نہیں بنتا تو ان اوقات میں بھی گیس نہیں آتی۔ بہت ہوا تو بس ایک لو سی جل پڑی۔

ایک زمانہ تھا ہماری ایک خالہ ہانڈی اٹھائے ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ کچھ سالوں سے ان کے علاقے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ اب ہم ہانڈی اٹھائے ان کے گھر بھاگتے ہیں۔

ہم چین سے آتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ برقی آلات لے آئے تھے۔ ان میں ایک ککر، ایئر فرائر اور روٹی بنانے کی مشین شامل ہے۔

کبھی بجلی کا بِل بڑھانے کی نیت ہو تو ان کا استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ پھر بِل دیکھ دیکھ کر جلتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک خاتون کی ٹویٹ دیکھی۔ وہ اس شدید سردی میں غریب خاندانوں کو گیس سے چلنے والے ہیٹر پہنچانے کا کام کر رہی تھیں۔

ہم نے پوچھا ہیٹر چلانے کے لیے گیس کہاں سے آئے گی۔ خاتون نے کہا ہم ان کی نیت پر شک نہ کریں۔ وہ ایک نیک کام کر رہی ہیں۔ ہمیں اعتراض کرنے کی بجائے ان کی مدد کرنی چاہیے۔

ہم نے کہا ہم آپ کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ہمارا سوال وہی ہے۔ آپ غریبوں کو ہیٹر تو پہنچا دیں گی ان ہیٹروں کو چلانے کے لیے گیس کہاں سے لائیں گے؟ اور گیس آ بھی گئی تو اس کا بِل کون دے گا؟

ایسے چار ہیٹر ہمارے گھر بھی پڑے ہوئے ہیں۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ وہ آخری بار کب چلے تھے۔ غالباً بچپن میں انہیں چلتا ہوا دیکھا تھا۔

اس کے بعد وہ ہر سال نکلتے تھے اور بغیر چلے ہی سٹور میں بند ہو جاتے تھے۔ اب ہم انہیں وہاں سے باہر نکالنے کا بھی تکلف نہیں کرتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور میں گیس کا یہ عالم ہے تو پنجاب کے باقی علاقوں میں کیا حال ہوگا۔ ہم اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

ہم ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جہاں ہمیں اپنے گھر بیٹھے ہوئے ہر طبقے کی زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔

کیا غریب کیا امیر کیا سفید پوش۔ سب کی زندگی پورے سال میں جی کر دیکھ لیتے ہیں۔

اسی وجہ سے ہمارے اندر صبر، شکر، برداشت، تحمل، بردباری، رواداری، استقامت وغیرہ وغیرہ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔

ہمیں خود سے کم لوگوں کا خیال کرنے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑتا۔ ہمیں گھر بیٹھے ان جیسی زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ہمارے اردگرد راشن کا ڈھیر موجود ہے لیکن ہم اسے پکا نہیں سکتے۔ غسل خانہ موجود ہے لیکن اس میں نہا نہیں سکتے۔

ورک فرام ہوم کرتے ہیں ورنہ دھند کے باعث کام سے ناغے اور پھر اس کے نتیجے میں تنخواہ میں ہونے والی کٹوتی کا بھی تجربہ ہو جاتا۔

ہم پھر بھی جو ملا ہے اس پر صبر شکر کر کے بیٹھے ہیں۔ اللہ ہمیں اس صبر کا اجر دے۔ آمین۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ