ہم سموسہ نہ کھائیں تو کیا کھائیں؟

ڈاکٹروں کے لیے سموسہ کیلوریز سے بھرا ہوا بم ہوتا ہو گا، عوام کے لیے بس سموسہ ہوتا ہے جو وہ شام کی چائے کے ساتھ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

بہت سے گھروں میں مہمانداری کا تصور چائے اور سموسے کے بغیر ممکن نہیں (اینواتو)

انسان کو ہلکی پھلکی بھوک لگ رہی ہو تو وہ کیا کھائے گا؟ اس بات کا انحصار اس کے گردونواح اور خود اس پر ہے۔ پاکستان میں اس بھوک کا علاج ایک آدھ سموسے، چند پکوڑوں، نمک پاروں یا کسی میٹھی چیز سے کیا جاتا ہے کہ دستیاب ہی یہی ہوتا ہے۔

ہمارا بچپن دودھ جلیبی کھاتے ہوئے گزرا۔ اماں کہتی تھیں: ’تھوڑی سی کھا لو۔ صحت کے لیے اچھی ہوتی ہیں۔‘ شام میں کوئی گھر آ جاتا تھا تو ابا سموسے لے آتے تھے۔ مہمانوں کی تواضع چائے سموسوں کے بغیر ادھوری تصور ہوتی تھی۔

یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے 

وقت گزرا۔ شہر میں سینکڑوں بیکریاں کھل گئیں۔ ہر بیکری اپنے نام کے ساتھ وہی چار پانچ اشیا بیچنا شروع ہو گئی۔ مٹھائی، نمکو، پیٹیز، پیسٹری، برگر، پیزا اور انواع و اقسام کی بریڈ۔

انسان کو جو دستیاب ہو گا وہ وہی کھائے گا۔ ہمیں یہی دستیاب ہے تو ہم یہی کھاتے ہیں۔

بچے تو غالباً چپس کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کھائیں نہ کھائیں چپس ضرور کھاتے ہیں۔ ماں باپ بھی ان کی ضد کے آگے ہتھیار پھینکتے ہوئے ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا معاہدہ طے کر لیتے ہیں۔ پورا دن گھر کا کھانا کھاؤ گے تو شام میں چپس کا چھوٹا والا پیکٹ ملے گا۔

بچے بھی ہوشیار واقع ہوئے ہیں۔ وہ شام میں گھر کے ہر فرد سے چپس کا ایک ایک پیکٹ لے لیتے ہیں۔

کچھ سال پہلے تک ریڑھی پر کٹے ہوئے پھل نظر آ جاتے تھے۔ اب وہ بھی غائب ہو گئے ہیں۔ بس پھل خریدو، گھر لے جاؤ، وہاں انہیں جیسے مرضی کھاؤ، لیکن اگر سڑک پر موجود ہو تو سموسے اور پکوڑے کے علاوہ جلیبی ہی کھائی جا سکتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے آپشن موجود ہیں۔ تاہم ان کا حال بھی کچھ انہی اشیا سا ہوتا ہے۔ یا تو تلی ہوئی ہوں گی یا شیرے میں ڈوبی ہوئی ہوں گی۔  

ایسے میں اگر ایک ڈاکٹر صاحب عوام کو سموسے اور جلیبی کھانے سے روکیں گے تو لوگ جواب میں انہیں اپنی سموسے کی پلیٹ ہی دکھائیں گے۔

ڈاکٹروں کے لیے سموسہ کیلوریز سے بھرا ہوا بم ہوتا ہو گا، عوام کے لیے بس سموسہ ہوتا ہے جو وہ شام کی چائے کے ساتھ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب اس ویڈیو میں اپنے بالوں اور جذبات کو سنبھال لیتے تو چند لوگ ان کی بات کو سنجیدہ لیتے ہوئے کچھ دن سموسے اور جلیبیاں کھانے سے پرہیز کر لیتے۔ 

شہر میں صحت مند کھانے کے آپشن بھی موجود ہیں۔ جیسے کہ جوس کارنر، جن کی وجہ شہرت وہاں ملنے والا جوس نہیں ہوتا۔ یہاں معاملہ رسائی اور آسانی کا آ جاتا ہے۔ مرد ان کارنرز پر رک کر دو منٹ میں جوس پی کر نکل جاتے ہیں۔ خواتین وہاں نہیں جا پاتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین وہاں چلی بھی جائیں تو خود کو آرام دہ محسوس نہیں کرتیں۔ گھر کے کسی مرد کے ساتھ گاڑی میں جائیں تو مہینے میں کتنی دفعہ چلی جائیں گی؟

ایسے میں لوگ سموسہ نہیں کھائیں گے تو کیا کھائیں گے۔

سموسے کی دکانوں پر بھی مردوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، لیکن وہاں سے سموسے پیک کروا کر گھر لائے جا سکتے ہیں۔ سموسوں کے ساتھ جلیبیاں خود ہی پیک ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف جوس کی بات کریں تو اس کی دکانیں بھی ہر جگہ موجود نہیں ہوتیں اور وہاں سے جوس پیک کروانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

 اگر کوئی اپنی ہلکی پھلکی بھوک کا علاج صحت مند طریقے سے کرنا چاہ رہا ہو تو اسے گھر میں ہی کچھ ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔ یہاں گھر والے ہمارے راستے میں آ جاتے ہیں۔ ہم جس دن سلاد بنائیں وہ اسی دن پائے، نہاری، کڑاہی یا بریانی بنا لیتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو دال کو ہی ایک پاؤ دیسی گھی کا تڑکہ لگا لیتے ہیں۔ سالن بنے گا تو اس کے اوپر بھی چار انچ موٹی تیل کی تہہ موجود ہو گی۔ ہمارے گھر روٹی پر دیسی گھی لگانا بھی لازمی ہے۔ ایسے میں کس کا پیٹ کم ہو گا؟

 پھر کچھ ہمارے جیسے دوست بھی ہوتے ہیں جو کسی کو صحت مند کھانا کھاتا دیکھ کر اس سے افسوس کرنا نہیں بھولتے۔ ہمارے ایک قریبی دوست جب بھی ڈائٹ پر جاتے ہیں ہم انہیں صبح دوپہر شام اپنی کھانے کی پلیٹ کی تصویر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ چار دن میں سلاد سے شوارما پر آ جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کے شوارما کی تصویر دیکھ کر ہی سکون ملتا ہے۔

قصہ مختصر عوام کو صحت مند کھانے کی ترغیب دینے کے لیے ایک صحت مند ماحول کی پیداوار بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر ان سے صحت مند ہونے اور رہنے کی توقع کرنا فضول ہے۔ جب صحت مند زندگی ان کی رسائی میں ہو گی تو وہ خود سموسے کی پلیٹ کو ایک طرف کر دیں گے۔ تب تک آپ بھی سموسے کھائیں اور انہیں بھی کھانے دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ