اس سے شادی کون کرے گا؟

پاکستان میں بھی خواتین اپنی خوبصورتی میں اضافے کے لیے یا خود کو معاشرتی طور پر قبول کروانے کے لیے طرح طرح کی سرجری کرواتی ہیں۔

دنیا بھر کی خواتین خود کو معاشرتی طور پر قبول کروانے کے لیے طرح طرح کی سرجری کرواتی ہیں (اے ایف پی)

13 سال پیچھے چلتے ہیں۔ اس وقت ہم کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک دن والد صاحب کا فون آیا۔ بڑی بہن ایک چھوٹے سے حادثے کے نتیجے میں ایک کلینک میں موجود تھیں۔ بچت ہو گئی تھی۔ وہ اسے لے کر گھر آ رہے تھے۔

بہن گھر آئی تو دیکھا اس کی ناک پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ سڑک کنارے چل رہی تھی۔ پیچھے سے ایک موٹر سائیکل سوار نے ٹکر ماری۔ وہ سیدھا فٹ پاتھ پر گری۔ ناک سے خون بہنے لگا۔ کچھ لوگ آئے اور انہیں ایک قریبی کلینک لے گئے۔ وہاں اس کی ناک کا ہلکا سا علاج ہوا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

اس نے فون کر کے والد صاحب کو بلا لیا۔ ان کے پہنچنے تک ناک کی مرہم پٹی ہو چکی تھی۔ والد صاحب نے ضروری معاملات نبٹائے اور انہیں گھر لے آئے۔

اس حادثے کے کچھ دن تک ہمارے گھر لوگوں کا رش بندھا رہا۔ جو آ نہ سکے وہ فون کر کے ’کیا ہوا، کیا ہوا‘ پوچھتے رہے۔ ایک آنٹی کا قصہ سنیں۔ وہ گھر آئیں۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی رونا شروع ہو گئیں۔ انہیں روتا دیکھ کر ہماری امی بھی رونے لگیں۔

تھوڑا سا رونے کے بعد آنٹی بہن کے پاس گئیں۔ اس کی ناک پر پٹی بندھی دیکھ کر چیخیں، ’ہائے اس کی شادی کیسے ہو گی، اس کے تو چہرے پر داغ لگ گیا۔‘

اتفاق دیکھیں، اس ہلکے سے علاج کے بعد اس کی پہلے سے ستواں ناک مزید ستواں ہو گئی۔ وقت آیا تو شادی بھی ہو گئی۔

لیکن یہ واقعہ ہمارے ذہن میں رہ گیا۔ ہمیں اس وقت پتہ لگا کہ معاشروں نے خواتین کے لیے کچھ معیارات طے کیے ہوئے ہیں۔ ان کا ان معیارات پر پورا اترنا اور اترے رہنا لازمی ہے۔

جیسے ان کا رنگ گورا ہو۔ آنکھیں بڑی ہوں۔ ناک پتلی ہو۔ ماتھا اور منہ دونوں چھوٹے ہوں۔ قد مناسب ہو۔ پانچ فٹ چار انچ سے پانچ فٹ سات انچ کے درمیان۔ وزن 50 سے 55 کلو کے درمیان ہو۔ جسم پر سر کے علاوہ کہیں بال نہ ہوں۔ سر پر جو بال ہوں وہ لمبے اور گھنے ہوں۔ ان بالوں کے لیے کالا رنگ پسند کیا جاتا تھا لیکن اب ان کا رنگا ہوا ہونا زیادہ اچھا تصور کیا جاتا ہے۔ چہرے کا رنگ سفید ہو۔ ہاتھ اور پاؤں بھی اسی رنگ کے ہوں۔ جسم پر کہیں کوئی داغ یا دھبے موجود نہ ہو۔

اور یہ ساری چیزیں ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔ ان میں کسی بھی صورت کمی نہیں آنی چاہیے ورنہ وہی سوال۔ اس سے شادی کون کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین کے لیے خوبصورتی اور معاشرتی قبولیت کے یہ معیار دنیا کے ہر معاشرے میں رائج ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک چین میں ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ اپنی بچیوں کے پاؤں کپڑے سے کچھ اس طرح باندھتے تھے کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتی تھیں۔

انہیں ان کی معذوری قبول تھی لیکن ان کے پاؤں کی قدرتی شکل قبول نہیں تھی۔ وہ اپنی بچیوں کے پاؤں کچھ اس طرح باندھتے تھے کہ ان کی انگلیاں نیچے کی طرف مڑ جائیں اور پاؤں سامنے سے تکونی شکل کا ہو جائے۔ چین میں اس وقت ایسے پاؤں خوبصورت تصور کیے جاتے تھے۔

سنہ 1912 میں چین نے عورتوں کے پاؤں باندھنے کی اس رسم کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود چین کے کچھ حصوں میں یہ رسم جاری رہی۔ سنہ 1949 کے بعد اس کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

تاہم، چین میں آج بھی خوبصورتی کے کچھ معیارات قائم ہیں۔ چینیوں کو بھی ہماری طرح خواتین کا گورا رنگ، بڑی آنکھیں، پتلی ناک، چھوٹا ماتھا اور چھوٹا منہ پسند ہے۔ چینی خواتین اپنے چہرے کے خدوخال اس معیار کے مطابق بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتیں۔ ورزش، میک اپ حتیٰ کہ سرجری بھی۔

چین میں خواتین کا بیج کی شکل والا چہرہ پسند کیا جاتا ہے یعنی ایسا چہرہ جو اوپر سے چوڑا ہو لیکن نیچے سے پتلا۔ جبڑے پتلے اور تھوڑی نوک دار ہو۔ اسے چینی زبان میں ’گوا زی لیان‘ کہتے ہیں۔

چینی لڑکیاں اپنے چہرے کو ایسی شکل دینے کے لیے اپنے جبڑے کی کچھ ہڈیاں نکلوا دیتی ہیں۔ جو ایسا نہ کر سکیں وہ اپنے بالوں اور میک اپ کی مدد سے اپنے چہرے کو ایسی شکل دینے کا تاثر دیتی ہیں۔

چینی خواتین یہیں نہیں رکتیں۔ وہ اپنی ناک کو ستواں بنانے کے لیے بھی سرجری کرواتی ہیں۔ جو سرجری نہ کروا سکتی ہوں وہ اپنی ناک کے نتھنوں میں پلاسٹک کے چھوٹے سے سانچے ڈال لیتی ہیں۔ اس سے ان کی ناک کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

پاکستان میں بھی خواتین اپنی خوبصورتی میں اضافے کے لیے یا خود کو معاشرتی طور پر قبول کروانے کے لیے طرح طرح کی سرجری کرواتی ہیں۔ اب تو بہت سے فیشل ڈاکٹرز کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ فیس لفٹنگ، بوٹوکس، فلرز اور جانے کیا کیا۔ جو نہیں ہوتا وہ ملک اور عوام کے غریب ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ورنہ ہم بھی ذرا سے پیسے دے کر جانے کون کون سے آپریشن کروا لیں۔

اور یہ سب معاشرتی دباؤ میں کیا جاتا ہے جو خواتین کو ایک اچھے سے گھر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ دباؤ تھوڑا سا ہلکا ہو جائے۔ ہماری خواتین بھی کچھ سانسیں کھل کر لیں اور جیسی ہوں اسی بنیاد پر خود کو خوبصورت محسوس کریں۔

پر ایسا ہو تو دنیا میں غم ہی کیا رہ جائے گا اور غم کے بغیر یہاں جینے کا کیا مزہ۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ