پاکستان میں سیاست دانوں پر مقدمے ختم کیوں ہو جاتے ہیں؟

قانون دانوں کا کہنا ہے کہ عدالت کسی کی خواہش پر سزا نہیں دے سکتی اور جب ثبوت معیار پر پورا نہیں اترتے تو ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ملک کے تمام اداروں کے آزادانہ طور پر کام کرنے کی صورت میں ہی کرپشن کے مقدمات میں انصاف کا حصول ممکن ہو سکتا ہے (پکسابے) 

پاکستان میں ہر دور میں سیاست دانوں پر مقدمات بنتے رہے ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوا ہے کہ یہ مقدمات اپنے منطقی انجام کو پہنچے ہوں۔

کسی ایک سیاسی یا عسکری حکومت کے دور میں بننے والے مقدمات، اقتدار کی باگ ڈور بدلتے ہی ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال ملک کے موجودہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف گذشتہ دورِ حکومت میں قائم کیے گئے مقدمے کی ہے۔

 رانا ثنا اللہ کے خلاف 2019 میں منشیات سے متعلق ایک سنگین مقدمہ بنایا گیا تھا، جو رواں سال دسمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا۔

جس کے بعد سیاستدانوں کے خلاف احتساب اور جرائم کے نام پر بننے والے مقدمات اور ان کے ختم ہو جانے سے متعلق اس تاثر کو تقویت ملی کہ یا تو ایسے مقدمات کی وجہ سیاسی انتقام ہوتا ہے یا طاقتور لوگ قانون اور نظام انصاف میں پائے جانے والے سقم کے سبب گرفت سے بچ جاتے ہیں اور یا پھر مقدمات  کے اندراج اور تحقیقات کا طریقہ کار درست نہیں۔

گذشتہ 25 برس کے دوران رانا ثنا اللہ کے علاوہ احتساب کے نام پر سیاسی رہنماؤں کے خلاف ہونے والے تقریبا تمام مقدمات ختم ہو چکے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے اس حوالے سے ماہرین قانون مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ایک سینیئر وکیل فرہاد علی شاہ، جو ایسے کئی مقدمات میں قانونی معاونت فراہم کر چکے ہیں، سے بات کی اور پوچھا کہ پاکستان میں سیاست دانوں پر ہونے والے مقدمات میں چند ہی منتقی انجام کو پہنچتے ہیں لیکن ان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھی شبہ پایا جاتا ہے۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کا کیس یا یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی یا پھر جاوید ہاشمی کی سزا کا کیس۔

اس میں خرابی کہاں ہے اور اس طرح کے سیاسی انتقام کو روکنے کا کیا طریقہ ہے؟

ایڈوکیٹ فرہاد علی شاہ کا جواب تھا: ’سیاسی انتقام ہمیشہ سے اس ملک میں لیا جاتا رہا ہے مگر پہلے پولیس کا استعمال ہوتا تھا اور جھوٹی ایف آئی آر کاٹی جاتی تھی۔ لیکن گذشتہ 10 سال کو دیکھیں تو اس میں ہر ادارے کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا ہے، پھر چاہے وہ ایف آئی اے ہے، نیب، اینٹی کرپشن یا انسداد منشیات کا ادارہ ہے۔‘

فرہاد علی کا کہنا تھا: ’جیسے رانا ثنا اللہ کے کیس میں انسداد منشیات کے ادارے کو استعمال کیا گیا، اسی طرح دوست محمد مزاری کے کیس میں اینٹی کرپشن کے ادارے کو استعمال کیا گیا۔ اسی طرح شہباز شریف کے کیس میں ایف آئی اے کے ادارے کا غلط استعمال ہوا۔‘

فرہاد علی شاہ کے مطابق ’اس کی روک تھام اسی طرح ہو سکتی ہے اگر ادارے اپنی آزادانہ حیثیت میں کام کریں۔ وہ سیاست دانوں کو اس طرح سے جواب دہ نہ ہوں کہ وہ ان کا غلط استعمال کر سکیں۔‘

جب فرہاد علی شاہ سے پوچھا گیا کہ ’احتساب کے ادارے نیب کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ ریفرنس فائل ہوجاتا ہے، بندہ پکڑا جاتا ہے اس کا ریمانڈ بھی لیا جاتا ہے لیکن جب کیس عدالت میں جاتا ہے تو سزا نہیں ہوتی بلکہ وہ بے گناہ ثابت ہو کر بری ہو جاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘

اس سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ فرہاد علی شاہ نے کہا کہ ’نیب کے کیسز میں سب سے پہلے انکوائری ہوتی ہے، اس کے بعد ریفررنس بنتا ہے، اس میں تفتیش کے بعد تمام ثبوت اکٹھے کر کے بھجواتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نیب کرپشن کو ختم کرنے کی خاطر بنی تھی، لیکن اب وہاں عوام الناس کے مسائل،  ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے مسائل اس کے علاوہ ڈیپارٹمنٹس کی بری کارکردگی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کا کینوس اتنا وسیع کر دیا گیا ہے کہ اب ان سے اس لیول کی نہ تو تفتیش ہو رہی ہے نہ ہی ثبوت اکٹھے ہو رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ’عدالت کسی کی خواہش پر سزا نہیں دے سکتی بلکہ اسے قانونی طور پر ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پورے طریقے سے کھنگالنا ہوتا ہے۔ اسی لیے جب ثبوت معیار پر پورے نہیں اترتے تو ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔‘

نیب قوانین میں ترامیم پر فرہاد شاہ کہتے ہیں کہ ’قتل کی دفعہ 302 کے مقدمات جس میں سزائے موت ہوتی ہے، میں 14 دن کا ریمانڈ  تھا جبکہ نیب کا قانون 90 دن کے ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے۔  نئی ترامیم انسانی حقوق  کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو بہت اچھی ہیں۔‘

ایک اور سینیئر قانون دان افتخار شاہ کہتے ہیں کہ ’جب بغیر ٹھوس شواہد کے فرضی مقدمات بنائے جاتے ہیں تو ان کو عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے جھوٹے مقدمات بنانے کے خلاف قانون مضبوط ہونا چاہیئے۔ آپ کے ذاتی حقوق کی حفاظت کرنے کے قوانین مضبوط ہونے چاہیے۔ آپ کے ادارے اتنے مضبوط اور شاندار ہونے چاہییں کہ کسی پر کیچڑ اچھالنا بہت ہی مشکل ہو جائے۔‘

افتخار شاہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں نئے قوانین بنانے کی ضرورت نہیں بس موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر رانا مشہود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: 'پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت سے بری تب ہی ہوتے ہیں جہاں کیسسز سیاسی انتقام کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کئی ایسے مقدمات بھی ہیں جن کی بنیاد درست تھی اور انہیں صحیح طریقے سے تیار کیا گیا اور ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا مشہود کا کہنا تھا کہ ’سیاسی انتقام کی روش ختم ہونا چاہیے۔ ایسے کیسسز میرٹ پر بننے چاہیے اور جنہوں نے پاکستان کا پیسہ لوٹا ہے ان سے وہ پیسہ واپس لیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کی آڑ میں سیاستدانوں کا جو میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے جو لوگوں پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔‘

پاکستان میں سیاست دانوں کے احتساب کی تاریخ

تجزیہ نگار مبشر بخاری کے خیال میں: ’پاکستان میں احتساب کا عمل اور اس سے منسلک ادارے  متنازع رہے ہیں۔ اور سیاسی انتقام کے ٹول (حربے) کے طور پر استعمال ہوئے۔ میرے خیال میں نیب کو یا تو ختم کر دینا چاہیے یا پھر از سر نو تشکیل دینا چاہیے۔‘

مبشر بخاری نے احتساب سے متعلق تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا : ’نیب نے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی، وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا۔ تاہم ان کے خلاف کوئی بھی مقدمہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ ان میں سے اکثر کو یا تو بری کر دیا گیا یا ضمانت دے دی گئی۔‘

مبشر بخاری نے نیب کے ترمیمی بل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اب قومی احتساب بیورو ترمیمی ایکٹ، 2022 کے ذریعے نیب کے حد سے زیادہ اختیارات کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سیکشن 14، جو نیب کو محض شک کی بنیاد پر لوگوں پر مقدمات درج کرنے اور گرفتار کرنے کا اختیار دیتا تھا، ختم کر دیا گیا ہے۔ نیب افسران پر انکوائری یا انویسٹی گیشن پبلک کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘

’پابندی کی خلاف ورزی پر انہیں ایک سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔‘

’اب قانون یہ بتاتا ہے کہ احتساب عدالت کے جج کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے اور مقدمات کو ایک سال میں نمٹانا ہو گا۔ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہو گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نیب کے پاس ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے ثبوت ہونا چاہیے۔ جھوٹا ریفرنس دائر کرنے کی سزا پانچ سال قید ہے۔‘

لیکن ساتھ ہی مبشر بخاری نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’صرف یہ ترامیم انسداد بدعنوانی کے ادارے اور نام نہاد احتسابی عمل کی ساکھ بہتر نہیں کر سکتیں۔ احتساب کے نعرے کو پاکستان کے تقریباً ہر حکمران نے سیاسی انتقام کی خاطر غلط استعمال کیا ہے۔‘

مبشر بخاری نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا: ’1949 سے، پاکستان میں حکومتیں احتساب کے مختلف طریقہ کار استعمال کر رہی ہیں۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 14 اگست 1947 سے پبلک ریپریزنٹیٹو آفسز ڈسکالیفکیشن ایکٹ (PRODA) نافذ کیا۔ PRODA کے تحت عوامی نمائندے کو 10 سال کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار ممدوٹ اور ان کے وکیل حسین شہید سہروردی اس کے متاثرین میں نمایاں تھے۔ سہروردی بعد میں وزیراعظم بنے۔ پروڈا کو زیادہ تر مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ایک کالے قانون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جنرل ایوب خان کو بھی یقین تھا کہ  PRODA ایک ’کالا قانون‘ ہے۔ اس لیے وہ اس کی جگہ ایک اور کالا قانون لے آئے، پبلک آفس ہولڈر ڈسکوالیفکیشن آرڈر (PODO)۔ کچھ ہی عرصے بعد، PODO کو Elective Bodies Disqualification Order (EBDO) میں تبدیل کر دیا گیا۔‘

’جنرل ایوب خان کے 70 سے زائد سیاسی مخالفین بشمول سہروردی اور قیوم خان کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور 1966 تک انہیں الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا۔ تاہم انہیں کبھی سزا نہیں ہوئی۔ ایوب خان کی برطرفی نے 3,000 سرکاری ملازمین کو بھی نقصان پہنچایا جنہیں ریٹائرڈ ججوں کے ماتحت کام کرنے والے خصوصی ٹربیونلز میں بدانتظامی کے مقدمات کی سماعت کے بعد برطرف کردیا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’جنرل یحییٰ خان نے بھی ایسا ہی جوش دکھایا اور 300 سے زائد اعلیٰ سرکاری ملازمین کو فارغ کر دیا۔ 1976 میں اس مقدمے کے بعد، اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہولڈرز آف ریپریزنٹیٹو آفسز ایکٹ (HPOA) اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں (رکنیت کے لیے نااہلی) ایکٹ نافذ کیا۔ ان سے پہلے پاس کیے گئے احتسابی قوانین کے برعکس ان ایکٹس کے تحت ایک بھی مقدمہ درج نہیں ہوا۔‘

مبشر بخاری کہتے ہیں کہ ’احتساب کا عمل 1997 میں اس وقت زیادہ متنازع ہو گیا جب نواز شریف دوسری بار اقتدار میں آئے اور انہوں نے احتساب ایکٹ 1997 نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت احتساب کمشنر کے اختیارات کو کم کیا گیا اور ایک احتساب سیل قائم کیا گیا۔ اس نے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی سیف الرحمان سے احکامات لیے۔ 1998 میں، احتساب سیل کا نام بدل کر احتساب بیورو رکھ دیا گیا۔‘

مبشر کے مطابق ’اس نے خاص طور پر بے نظیر بھٹو، ان کے شریک حیات اور قریبی مشیروں کو نشانہ بنایا۔ 2003 میں پی پی پی کی جانب سے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی گئی تھی جس میں سیف الرحمٰن کو لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک قیوم کو منی لانڈرنگ کیس میں بھٹو اور زرداری کو زیادہ سے زیادہ سزا دینے کا کہتے سنا گیا تھا۔ انہیں مجرم ٹھہرایا گیا اور انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔‘

مبشر بخاری نے بتایا: ’قومی احتساب بیورو کا موجودہ ڈھانچہ جنرل پرویز مشرف نے قائم کیا تھا جنہوں نے احتساب ایکٹ کو تبدیل کرنے کے لیے قومی احتساب بیورو آرڈیننس جاری کیا اور احتساب کے ادارے کو بھرپور طاقت دی جس میں ملزم کو کسی بھی عدالت میں پیش کیے بغیر اس کی 90 دن کی حراست بھی شامل تھی۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’2002 کے عام انتخابات سے قبل اس آرڈیننس کا سیاست دانوں اور کچھ سرکردہ صنعت کاروں کے خلاف بے رحمی سے غلط استعمال کیا گیا۔ 2008 کی مخلوط حکومت نے نیب کو 60 سیاستدانوں کے خلاف انکوائری روکنے کا حکم بھی دیا تھا۔‘

مبشر کے مطابق ’2013 میں نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد پاناما لیکس سامنے آیا اور ان کی نااہلی کا باعث بنا۔ بعد ازاں احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل کیس میں انہیں سات سال قید اور 1.5 ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی۔‘

’اسی طرح مریم نواز شریف کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کی ایک ویڈیو جاری ہونے کے بعد ان کی سزا انتہائی متنازع ہو گئی۔ اس میں جج کو یہ اعلان کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ ان پر مریم کو مجرم قرار دینے اور سزا دینے کے لیے بہت دباؤ تھا۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک مرحوم کو مس کنڈکٹ پر برطرف کر دیا تھا۔‘

مبشر مزید کہتے ہیں کہ ’سابق وزیر اعظم عمران خان نے جولائی 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد نیب کے ذریعے ’بے رحمانہ‘ احتساب کا وعدہ کیا لیکن وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو نشانہ بناتے رہے۔‘

عمران خان کے اقتدار سے باہر جانے کے بعد موجودہ حکومت کے دوران عمران خان کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات قائم ہو چکے ہیں، جن کے حتمی فیصلے ابھی آنا باقی ہیں۔

مبشر بخاری کہتے ہیں: ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ آزاد جمہوریت کے بغیر منصفانہ اور ہمہ گیر احتساب ممکن نہیں۔ اگر حکومت قومی اتفاق رائے سے نیب کے موجودہ ڈھانچے کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ تشکیل دیتی ہے تو احتساب کا عمل آنے والے سالوں میں لوگوں کا اعتماد حاصل کر سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان