’بلدیاتی الیکشن میں مزید تاخیر ہوگی‘: صدر کا بل پر دستخط سے انکار

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل پاس ہونے کے بعد حتمی منظوری کے لیے صدر کو بھجوایا گیا جہاں سے ابھی منظوری نہیں ہوئی۔

صدر نے ترمیمی بل آئین کے آرٹیکل 75 کی شق (1) (b) کے تحت بغیر دستخط کیے واپس کردیا (تصویر: صدر پاکستان ویب سائٹ)

ایوانِ صدر سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2022 کو بغیر دستخط کے واپس کر دیا ہے۔

صدر نے یہ بل آئین کے آرٹیکل 75 کی شق (1) (b) کے تحت بغیر دستخط کیے واپس کردیا اور یہ موقف پیش کیا کہ ’اس سے بلدیاتی انتخابات میں مزید تاخیر ہو گی۔ وفاقی حکومت کے عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں انتخابی عمل میں دو بار تاخیر ہوئی، جو کہ جمہوریت کے لیے مثبت نہیں۔‘

اعلامیے میں وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ’50 یونین کونسلوں کی حد بندی مکمل ہونے کے بعد، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے 31 جولائی 2022 کو ICT  میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا فیصلہ کیا۔

پولنگ کی تاریخ کے اعلان کے باوجود، وفاقی حکومت نے یونین کونسلوں کی تعداد 50 سے بڑھا کر 101 کر دی، جس کے نتیجے میں انتخابات التوا کا شکار ہوئے۔‘

مزید کہا کہ ’101 یونین کونسلوں کی حد بندی کے بعد، الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر 2022 کو آئی سی ٹی میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ بل کا سیکشن دو آئی سی ٹی میں 125 یونین کونسلوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس لیے 31 دسمبر 2022 کو ہونے والے انتخابات دوبارہ ملتوی کر دیے گئے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’موجودہ بل کے سیکشن تین کے مطابق، انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کا طریقہ بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘

صدر مملکت نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ان غلط اقدامات کی وجہ سے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں انتخابات نہیں ہو سکے۔

بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر کب کیا ہوا؟

فی الوقت موجودہ صورت حال کے باعث اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ التوا کا شکار ہو چکا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس ہونے کے بعد حتمی منظوری کے لیے بل صدر کو بھجوایا گیا جہاں سے ابھی منظوری نہیں ہوئی۔

اس سے قبل وزارت داخلہ نے 101 یونین کونسلز کی بجائے 125 یونین کونسلز کا نوٹیفیکیشن نکالا جسے الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اب مزید حلقہ بندیوں کا وقت نہیں انتخابات کا شیڈیول تیار ہو چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف وفاق نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا کہ انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں کے ساتھ مقررہ وقت پر کروائے جائیں۔

23 دسمبر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جس میں انہوں نے حکومتی نوٹیفیکیشن کو مسترد کیا تھا اور ساتھ ہی ہدایت جاری کی کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو حکومت کا موقف سن کر دوبارہ فیصلہ کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 27 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے اور یونین کونسلز بڑھانے کی حکومت کی استدعا منظور کر لی کہ جس میں حکومتی موقف تھا کہ اسلام آباد کی آبادی بڑھ چکی ہے کم یونین کونسلز کے ساتھ عوام ووٹ کے حق سے محروم ہو جائیں گے اس لیے یونین کونسلز بڑھا کر دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں۔

28 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ لیکن ایک بار پھر معاملہ ہائی کورٹ کے پاس چلا گیا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب طاہر نے کیس کی سماعت کی۔ 29 اور 30 دسمبر دو دن متواتر سماعتوں کے بعد جسٹس ارباب نے 30 دسمبر کی شام فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن کاالعدم قرار دیا اور 31 دسمبر کو انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ’لوکل باڈی سسٹم یقینی بنانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آئینی دفعات سے نہ کوئی فرار ممکن ہے نہ اس پر کوئی رعایت دی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابی شیڈیول کا اعلان کر چکا تھا مگر 12 دن پہلے یونین کونسلز کی تعداد بڑھا دی گئی۔ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، نہ حکومت کا دو ٹوک موقف آیا۔‘

31  دسمبر کو الیکشن کمیشن نے انتخابات نہیں کرائے وجہ یہ بیان کی کہ چونکہ 23 دسمبر کو چیف جسٹس ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار دے چکے تھے جس پر 27 دسمبر کو حکومتی موقف سُنا گیا اس دوران انتخابات کی تیاری کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

وفاق اور الیکشن کمیشن دونوں نے ہفتے کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ سنگل بینچ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کی سماعت پیر کو متوقع ہے۔

وفاق کی انٹرا کورٹ اپیل میں موقف

وفاق کی انٹرا کورٹ اپیل میں موقف اپنایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ نا تو قانون اور نا ہی حقائق پر پورا اترتا ہے۔

سنگل بینچ نے شام پانچ بجے حکم دیا کہ اگلے روز انتخابات کروائے جائیں۔ وقت کی کمی کے باعث عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانا ممکن ہی نا تھا۔

سنگل رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی ملحوظِ خاطر نہ رکھا اور عدالتی فیصلے میں قانون اور حقائق کی غلط تشریح کی گئی۔

الیکشن کمیشن کی انٹرا کورٹ اپیل میں موقف

الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن بے شمار وجوہات کی بنیاد پر 31 دسمبر کو ممکن ہی نہیں تھے۔ بیلٹ پیپرز چھپوائی کے بعد پرنٹنگ کارپوریشن میں موجود تھے۔

بیلٹ پیپرز کو 14 ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پہنچانا تھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے پر 23 سے 31 دسمبر کے درمیان شیڈول کی سرگرمیاں روک دیں۔

آر اوز نے بیلٹ پیپرز وصولی سے تقسیم تک مختلف اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔

14 ہزارسے زائد سٹاف نے الیکشن ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینا تھے۔ گلگت اور آزاد کشمیر سے بھی سٹاف نے آنا تھا۔

حساس پولنگ سٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کرنا ہوتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں آج انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا۔

(ایڈیٹنگ: ندا حسین)
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست