2023 کے ایسے چیلنج جن پر اب سیاست کی گنجائش باقی نہیں

خدانخواستہ اگر ان دو چیلیجز کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ہم اس دلدل میں دھنستے چلیں گے جہاں سے ملک کو نکالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس وقت ٹیکنوکریٹ حکومت کے شوشے چھوڑنا بے وقت کی راگنی ہے جس سے صرف پہلے سے موجود غیر یقینی میں ہی اضافہ ہوگا۔

اسلام آباد میں بچے 31 دسمبر کی شام کو کھیلتے ہوئے (اے ایف پی)

2022 سیاسی، معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے ہنگامہ خیز اور ہیجان خیز رہا۔ عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے رخصت ہونے والے پہلے وزیراعظم بنے، پی ڈی ایم نے شہباز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالا لیکن سیاسی افراتفری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی گئی۔

نئے آرمی چیف کی تعنیاتی سیاست اور صحافت دونوں پر چھائی رہی۔ چلیں فوج کی چینج آف کمانڈ تو بخیر و خوبی طے پائی گئی لیکن ملکی مسائل جوں کے توں موجود ہیں بلکہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ نئے سال کی آمد مسائل میں گھری پی ڈی ایم کی حکومت کے لیے نئے مسائل بھی ساتھ لائی ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت کمزور ہوتی معیشت اور کالعدم ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیاں رواں برس دو ایسے بڑے چیلنجز رہیں گے جن سے نمٹنا ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے لیکن ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل جیسے اتحادیوں کا شہباز شریف حکومت سے ناراض ہونا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ شہباز شریف حکومت کے لیے رواں سال سیاسی چیلنجز صرف عمران خان کی صورت میں ہی سامنے نہیں ہوں گے۔

حکومت کو نہ صرف معیشت بہتر بنانی ہے بلکہ رواں برس ہونے والے انتخابات سے پہلے عوام میں اپنی مقبولیت کا گراف بھی بڑھانا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومتی اتحادی بھی انتخابات سے پہلے اپنی پوزیشننگ کریں گے، اپنے مطالبات ہر صورت منگوائیں گے، حکومت کے لیے چیلینجز کا انبار بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ رہی بات عمران خان کی تو انہوں نے اپنی توپوں کا رخ تو جنرل باجوہ کی طرف کر دیا ہے لیکن ان کا اصل چیلنج سنجیدہ نوعیت کے مقدمات اور اس کے نتیجے میں نااہلی سے بچنا ہے۔

سیاستدانوں کی نااہلی ہماری سیاست کی تلخ حقیقت ہے لیکن عمران خان کے مقدمات کی سنجیدہ نوعیت پر اگر نظر ڈالی جائے تو فی الحال تاریخ ایک دفعہ اپنے آپ کو دہراتی نظر آ رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملکی سیاست ایک اور موڑ لے سکتی ہے، تحریک انصاف میں کئی سینیئر رہنما اس بحث اورتگ و دو میں پڑ چکے ہیں کہ ایسے میں پارٹی قیادت کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔

ایسا ہونا بدقسمتی ہو گی کیونکہ سیاستدانوں کے احتساب کا واحد ذریعہ ووٹ ہی ہونا چاہیے لیکن جنرل باجوہ کے حالیہ انٹرویوز سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح سے عدلیہ پر دباؤ ڈلوا کر نوازشریف کو نااہل کروایا گیا۔ فی الحال عدالتوں پر کسی ایسے دباؤ کے شواہد سامنے نہیں آئے لیکن اس بات کے بھی شواہد سامنے نہیں آئے کہ عدلیہ پر عمران خان کو بچانے کے لیے کوئی دباؤ موجود ہے۔ بہرحال اس معاملے میں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے نہ کہ نااہل قرار دینے یا بچانے کے دباؤ کے کوئی شواہد۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت فوج کے لیے سب سے بڑا چیلنج خود کو سیاسی معاملات سے مکمل دور رکھنا تو ہے ہی لیکن ساتھ میں کالعدم ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ سے سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چینجلز اور افغان طالبان سے تعلقات میں تلخی ایسے معاملات ہیں جن میں سیاسی قیادت کا آن بورڈ ہونا اور فیصلوں کی اونر شپ لینا بھی ناگزیر ہے۔

پاکستان کے مقتدر حلقے ہوں، حکومت یا اپوزیشن، نئے سال میں سب کے لیے کٹھن اور مشکل چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں لیکن اس وقت اس ملک کو دو ایسے چیلنجز درپیش ہیں جن کا کوئی ایک فریق اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ضروری ہے کہ مل کر فیصلے لیے جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ ان دو معاملات پر اب سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ سٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر میثاق معیشت اور میثاق انسداد دہشت گردی کرنے پڑیں گے اور اس میں جتنی دیر ہو گی اتنا ہی یہ دونوں معاملات سیاست اور گورننس کو اوور شیڈو کرتے جائیں گے۔

خدانخواستہ اگر ان دو چیلیجز کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ہم اس دلدل میں دھنستے چلیں گے جہاں سے ملک کو نکالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس وقت ٹیکنوکریٹ حکومت کے شوشے چھوڑنا بے وقت کی راگنی ہے جس سے صرف پہلے سے موجود غیر یقینی میں ہی اضافہ ہوگا۔

ایم کیو ایم اکٹھی ہو نہ ہو، باپ پارٹی تحلیل ہو نہ ہو، لوکل باڈیز انتخابات ہوں نہ ہوں یہ سب کچھ بے معنی ہو گا اگر خدانخواستہ پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی حالات اتنے بگڑ جائیں کہ انہیں سنبھالنے میں ہر سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ بے بس نظر آئے۔


نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ