فیصل آباد کے شہری جو ہر سال 200 من ساگ پکا کر بانٹتے ہیں

فیصل آباد کے محمد سلیم ہر سال سردیوں میں پالک کا ساگ پکاتے اور اندرون و بیرون ملک دوستوں اور رشتہ داروں کو تحفتاً بھیجتے ہیں۔

پنجاب میں ساگ کو سردیوں کی سوغات کہا جاتا ہے اور سردی کا موسم شروع ہوتے ہی اس کے چرچے شروع ہو جاتے ہیں۔

ایسے میں شہری بابو بن جانے والوں کے اندر کا پنجابی بھی جاگ اٹھتا ہے اور وہ گاؤں دیہات میں رہنے والے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ساگ کھلانے کی فرمائش شروع کر دیتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کی خواہش پوری ہو جاتی ہے اور کچھ کے حصے میں صرف انتظار آتا ہے۔

تاہم فیصل آباد کے علاقے گٹ والا کےرہائشی محمد سلیم نہ صرف خود ساگ کھانے کے شوقین ہیں بلکہ گذشتہ 25 سال سے فیصل آباد سمیت دیگر شہروں اور بیرون ملک مقیم دوستوں اور رشتہ داروں کو ہر سال تقریبا 150 سے 200 من ساگ پکا کر سردیوں کی سوغات کا تحفہ بھیجتے ہیں۔

محمد سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ شہر میں رہنے والوں کے لیےگھر پر ساگ پکانا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے دوستوں کی خوشی کی خاطر خود ساگ تیار کروا کے ان انہیں بھجواتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 30، 32 سال قبل ان کی زمینوں کے مالک نے ساگ کی فرمائش کی جس پر انہوں نے انہیں گھر میں ساگ پکوا کر بھیجا تھا۔

’اس کے بعد آہستہ آہستہ دیگیں بننا شروع ہو گئیں اور اب 25 سال سے یہ بڑے بڑے پتیلوں میں تیار ہو رہا ہے۔ ایک پتیلے میں تقریبا پانچ من ساگ بنتا ہے۔‘

محمد سلیم کے مطابق وہ تین سے چار دن میں 40 سے 50 من ساگ تیار کرتے ہیں جبکہ ایک دن میں ان کے پاس 10 من ساگ تیار کرنے کے انتظامات موجود ہیں۔

’ہمارا ساگ امریکہ، انگلینڈ، اور سعودی عرب بھی جا رہا ہے۔ دوست ہم سے لیتے ہیں اور پھر وہ آگے اپنے عزیز واقارب کو بھی بھجواتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ساگ بھجوانے کا عمل نومبر کے مہینے میں شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے فروری تک جاری رہتا ہے۔

’ہم اپنا ساگ خود اگاتے ہیں اور تقربیا دو کنال میں پالک کاشت کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم اپنا ساگ نہری پانی کے ذریعے خود تیار کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ساگ کو کھیتوں سے توڑ کر لانے، چھیلنے، کاٹنے، بنانے اور پکانے کے لیے ان کے پاس تقریبا 15 سے 20 افراد کام کرتے ہیں، اور ہر مرحلے پر ان کی نگرانی وہ خود کرتے ہیں۔

محمد سلیم کے مطابق وہ دوست احباب کے علاوہ کچھ یتیم خانوں اور مدارس کو بھی مفت ساگ بنا کر دیتے ہیں۔

ان کے مطابق ’دوست احباب ہمیں کہتے ہیں کہ انہیں تکہ، کباب، مچھلی، مٹن سب کچھ بازار سے مل جاتا ہے لیکن بازار سے اس طرح کا ساگ نہیں ملتا۔‘

اس کام کو کمرشل پیمانے پر کرنے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ایسا ممکن تو ہے لیکن کمپنیاں مال تیار کرنے والوں کو بہت کم معاوضہ دیتی ہیں۔

’اس لیے ہم نے کبھی اس میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ یہ 250 سے 300 روپے کلو ہمیں گھر پر پڑتا ہے۔ وہ ہمیں پانچ سو روپے کلو دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان