کیا معافی مانگ لینا کافی ہے؟

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ خواتین ہی کو نشانہ بنایا جائے؟ اگر اس یوٹیوبر کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو وہ سامنے لائیں یا کم از کم پورے پورے نام دیں لیکن یوٹیوب ویڈیو میں کون ان سے پوچھ سکتا ہے؟

چھ دسمبر 2022 کی اس تصویر میں نیویارک میں یوٹیوب شارٹس ہالیڈے پارٹی  میں شریک ایک مہمان نے یوٹیوب کے آئیکون پر مشتمل بیج لگایا ہوا ہے (اے ایف پی)

گذشتہ سال کے آغاز میں فیکٹ چیک کرنے والی تنظیموں نے کہا تھا کہ یوٹیوب دنیا بھر میں ایک بڑا پلیٹ فارم ہے، جہاں سے غلط اور جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور یوٹیوب اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہا۔

انہی تنظیموں نے یوٹیوب کو ایک خط میں کہا کہ یہ پلیٹ فارم اب بھی غلط اور جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔ 

اس خط میں کہا گیا کہ یوٹیوب جھوٹی اور غلط خبریں پھیلانے والے افراد یا تنظیموں کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے تاکہ وہ جھوٹی اور غلط خبریں پھیلاتے رہیں اور پیسے بناتے رہیں۔

ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ غلط اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا یہ عمل گلوبل ساؤتھ میں بہت زیادہ ہے، یعنی لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوٹیوب کا کنٹرول ایسی ویڈیوز پر بہت کم ہے جو انگریزی میں نہیں ہیں۔ 

یوٹیوب بھی ایک عجب چیز ہے۔ اچھے اچھے لوگ بھی ہٹس کے چکر میں کیا کچھ کر بیٹھتے ہیں۔ وہ صحافی جو ٹی وی چینلز اور سیمینارز میں بیٹھ کر صحافت پر درس دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے صحافت کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی قسم کی خبر نہیں چلانی چاہیے، وہ جب اپنے یوٹیوب چینل پر بیٹھتے ہیں تو بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ کسی قسم کی تصدیق کیے بغیر شروع ہو جاتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کا یوٹیوب چینل زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے اور ایسے ایسے انکشافات کیے جاتے ہیں جن میں سے میرے خیال میں 90 فیصد صرف قیاس آرائیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ جتنی زیادہ مبالغہ آرائی اتنے ہی زیادہ ہٹس اور اتنے ہی زیادہ پیسے۔ 

میری والدہ بھی یوٹیوب دیکھتی ہیں اور اکثر اوقات مجھے کہتی ہیں کہ ’فلانے نے ایسا کردیا اور فلانے کو یہ ہو گیا ہے۔‘ شروع شروع میں تو میں بھی حیران ہو جاتا تھا کہ یہ تو بڑی خبر ہے لیکن پھر جب یوٹیوب ویڈیو دیکھتا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔ اب تو میری والدہ کسی خبر کے حوالے سے  بات کرتی ہیں تو میرا پہلا سوال ہوتا ہے کہ یہ خبر کہاں سنی ہے۔ اگر جواب میں یوٹیوب کہا جائے تو میں فوراً کہہ دیتا ہوں کہ ایک کان سے سنا کریں اور دوسرے سے نکال دیا کریں۔ 

لیکن حال ہی میں ایک یوٹیوب ویڈیو نے تو تمام حدیں پار کردیں۔ خیر حال میں تو آڈیوز اور ویڈیوز کے حوالے سے ویسے بھی کئی حدیں پار کی جا چکی ہیں۔ کسی بھی مہذب اور قانون کی عملداری والے ملک میں نہ ہی سیاست دان اچک اچک کر ان آڈیوز اور ویڈیوز پر سیاست کرتے اور نہ ہی عوام سیاست دانوں کے حوالے سے آرا بناتے بلکہ سب سے پہلے یہ سوال کیا جاتا کہ غیر قانونی طور پر یہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی؟ اور یہ ویڈیو کس نے بنائی؟ اس ویڈیو اور آڈیو میں کیا ہے وہ بعد کی بات ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو حال ہی میں ایک ریٹائرڈ میجر صاحب (جو برطانیہ میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں) نے اپنے یوٹیوب چینل پر پاکستان کی چوٹی کی اداکاراؤں اور ماڈلز کے حوالے سے کافی ’انکشافات‘ کیے۔ یہ صاحب اپنے ساتھ میجر کے رینک کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ عوام کو یہی لگتا ہے کہ ان کو اندر کی باتیں معلوم ہوں گی۔

اس ویڈیو میں کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن ان کے ناموں کے پہلے حرف بتائے گئے۔ پھر کیا تھا سوشل میڈیا نے ان حروف سے ملتے جلتے ناموں کی اداکاراؤں اور ماڈلز کی تلاش کی اور ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر آویزاں کرنا شروع کر دیں۔ 

کسی نجی ڈانس پارٹی کی پرانی ویڈیو لے کر یہ دعوے شروع ہو گئے کہ یہ ویڈیو ان ’رنگ رلیوں‘ کی ہے۔ کہیں ایک اداکارہ فیشن شوٹ کر رہی ہیں تو وہ بھی انہی رنگ رلیوں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ 

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ خواتین ہی کو نشانہ بنایا جائے؟ اگر اس یوٹیوبر کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو وہ سامنے لائیں یا کم از کم پورے پورے نام دیں لیکن یوٹیوب ویڈیو میں کون ان سے پوچھ سکتا ہے؟ 

ایک اداکارہ نے برطانیہ میں کیس کرنے کی دھمکی دی تو معافی مانگ لی۔ لیکن کیا معافی کافی ہے؟ اب اس یوٹیوبر کے خلاف عدالت میں کیس تو کردیا گیا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ تھمتا ہے نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ