گائنی وارڈ کی وائرل ویڈیو: کیا ہسپتال میں ویڈیو بنانا غیرقانونی ہے؟

ضلع خیبر کے ایک ہسپتال کے گائنی وارڈ میں بننے والی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے خاتون ملازمہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

42 سیکنڈ کی ویڈیو میں ہسپتال کے گائنی وارڈ میں خالی بستر دیکھے جا سکتے ہیں (سکرین گریب/فیس بک جبران شنواری) 

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے سرکاری ہسپتال کے گائنی وارڈ میں ایک ملازمہ کی ٹک ٹاک ویڈیو وائرل ہونے پر صوبائی محکمہ صحت نے ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

تحصیل لنڈی کوتل کے ہسپتال میں ویڈیو بنانے والی ملازمہ سلمہ ناز نے، جو عالمی ادارہ صحت کے ایکسپینڈڈ پروگرام آن ایمیونائزیشن (ای پی آئی) سے بحیثیت مانیٹر منسلک تھیں، محکمہ جاتی کارروائی شروع ہونے بعد کے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

مذکورہ ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ضلع خیبر میں اس متعلق عوامی ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالقیوم آفریدی نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ویڈیو کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ویڈیو میں کوئی ’غیر اخلاقی‘ حرکت یا بات موجود نہیں، تاہم زیادہ اعتراض گائنی وارڈ میں بنائے جانے پر کیا جا رہا ہے۔

خیبر کے ضلعی ہیلتھ افسر نے صوبائی محکمہ صحت کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں ہسپتال کے احاطے میں ٹک ٹاک ویڈیو بنائے جانے کو’غیر قانونی اور غیر اخلاقی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے سرکاری محکمے کا ’نام بدنام‘ ہوا۔

انہوں نے ملازمہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کی۔  

خیبر کے ضلعی ہیلتھ افسر ڈاکٹر ظفر علی خان نے بتایا کہ متعلقہ خاتون نے یہ ویڈیو ہسپتال کے گائنی وارڈ کے اندر ویکسینیشن پروگرام کی مانیٹرنگ کے دوران بنائی۔

انھوں نے بتایا کہ جس ہسپتال میں مذکورہ ویڈیو بنائی گئی وہ فنکشنل ہے، تاہم وارڈ نیا بنا ہے جس کا چند ایک روز میں افتتاح ہونا ہے۔

ویڈیو کے غیر اخلاقی ہونے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: ’ہسپتال ایک سرکاری عمارت ہوتی ہے، جہاں مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں اور ایسی جگہوں پر ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری ہسپتال میں بغیر اجازت ویڈیو بنانے کی ممانعت ہے اور اس حوالے سے محکمہ صحت کی ہدایات موجود ہیں۔

’اس خاتون نے ہسپتال قوانین کی خلاف ورزی کی اور ویڈیو کے باعث علاقہ مکین بھی پریشان ہیں۔‘

ویڈیو میں کیا ہے؟

فیس بک اور ٹوئٹر کے علاوہ سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں ہسپتال ملازمہ ایک خالی وارڈ اور برآمدوں میں گھومتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔

42 سیکنڈ کی ویڈیو میں خاتون کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ تاہم ہسپتال کے وارڈ میں پڑے خالی بستر، فرنیچر وغیرہ دیکھے جا سکتے ہیں۔

ویڈیو اس وقت بنائی گئی جب وارڈ میں کوئی مریض یا عملے کے لوگ موجود نہیں تھے۔ 

ہسپتال میں ویڈیوز بنانا غیر قانونی؟

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت نے فروری 2021 کے ایک مراسلے میں صوبے کے سرکاری و نجی ہسپتالوں کے لیبر روم، گائنی وارڈ، اور گائنی آپریشن تھیٹر میں ویڈیوز اور تصاویر بنانے والے موبائل فونز اور ریکارڈنگ ڈیوائسز لے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہسپتال میں ویڈیوز بنانے کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے سوال پر پشاور ہائی کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی گوہر درانی نے کہا کہ ہسپتال میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے سے عوام میں کیا تاثر جائے گا؟

انہوں نے کہا کہ گائنی وارڈ میں ویڈیو بنانے سے عوام میں اعتماد کے فقدان کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔

’گائنی وارڈ ایک حساس جگہ ہے، جہاں مکمل رازداری اور پردے کا یقینی بنایا جانا ضروری ہے اور گائنی وارڈ کی ویڈیو وائرل ہونے سے ہسپتال کے بارے میں عوامی رائے پر برا اثر پڑے گا۔‘ 

انہوں نے صوبائی محکمہ صحت کے مراسلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ہسپتالوں میں ویڈیوز اور تصاویر بنانے پر پابندی کا مقصد مریضوں کی پرائیویسی (رازداری) ہوتا ہے۔

اظہار رائے کی آزادی سے متعلق دریافت کیے جانے پر ان کا کہنا تھا: ’اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ایک شق حدود سے متعلق بھی موجود ہوتی ہے جو برابر کی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان