مارگلہ ہلز پر ویڈیو بنانے کے لیے مبینہ طور پر ایک ٹک ٹاکر کے آگ لگانے پر ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ ’غیر قانونی اور خطرناک رویوں‘ کی کی ترویج نہیں کرتی۔
چند روز قبل ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں ڈولی نامی ٹک ٹاکر نوشین سید مارگلہ ہلز کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے سامنے سرمئی رنگ کا گاؤن/ میکسی پہنے خوشگوار انداز میں چہل قدمی کر رہی تھیں اور عقب میں مشہور گانا ’پسوڑی‘ بج رہا تھا۔
ٹک ٹاکر نے اپنی ویڈیو کے ساتھ تحریر کیا: ’جہاں میں ہوتی ہوں وہاں آگ لگ جاتی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ ٹک ٹاکر ڈولی نے ویڈیو بنانے کے لیے مارگلہ کے جنگلات میں آگ لگائی تھی۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا جب پورا ملک شدید ترین ہیٹ ویو کا سامنا کر رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس تنقید کے جواب میں ٹک ٹاک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’غیرقانونی اور خطرناک رویوں‘ کی ترویج نہیں کرتے۔‘
ٹک ٹاک کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے: ’ایسا کوئی بھی مواد جو خطرناک اور غیرقانونی ہو، ہمارے معاشرتی معیار کے خلاف ہے۔ ہم ایسے مواد کو ہٹانے، محدود کرنے یا لیبل کرتے ہیں جو خطرناک یا غیر قانونی حرکات کو ظاہر کرتا ہے۔‘
’ہم صارفین کی حفاظت کے لیے بہت محتاط پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور اس امر کی ترویج کرتے ہیں کہ خواہ آن لائن ہو یا آف لائن، ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کریں۔‘
تاہم ٹک ٹاک کی جانب سے ایسی کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی کہ انہوں نے ٹاک ٹاکر کی ویڈیو، جس میں وہ سرمئی رنگ کا لباس پہنے پہاڑوں پر لگی آگ کے سامنے سے گزر رہی تھی، کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے۔
مقامی سطح پر ٹک ٹاکر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
نیلم ارشد نامی ٹوئٹر صارف نے تحریر کیا: ’پہاڑ ابھی بھی جل رہے ہیں اور یہ آزادانہ اپنے ہیش ٹیگ اور منفی شہرت کے مزے لے رہی ہیں۔‘
Hills r burning still and she’s freely enjoying her Hashtag and more low publicity #MargallaHills #Dolly https://t.co/LjwCJRFVMn
— NeelumArshad (@NeelumArshad) May 18, 2022
ایک اور ٹوئٹر صارف نے تحریر کیا کہ ’پولیس کو انہیں حوالات میں بند کرنا چاہیے۔ انہیں ایسے رویے کے لیے سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ مارگلہ ہلز پہ آگ لگا دینا، وہ بھی صرف ویڈیو کے لیے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟
The police should keep her in bars .. she should be given severe punishment for such behavior .. setting fire on margalla hills just for her videos .. how can she ?! #Dolly #MargallaHills
— pandaaa (@panda_gonemad) May 18, 2022
اطلاع ٹو ڈے نامی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی: ’چند سیکنڈ کی ویڈیو کے لیے کتنے پرندوں کے گھر اجاڑے ہوں گے، کتنے پرندے اس آگ کا نشانہ بنے ہوں گے۔ اس اقدام پر کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے۔‘
چند سیکنڈ کی ویڈیو کے لیے کتنے پرندوں کے گھر اجاڑے ہوں گے کتنے پرندے اس آگ کا نشانہ بنے ہوں گے اس اقدام پر کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے #Dolly#Dollyfashion#امپورٹڈ_حکومت_نامنظور pic.twitter.com/TEolw4NeHl
— ITLA Today (@ItlaToday) May 17, 2022
محمد طلحہ طارق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹک ٹاکر ڈولی نے مارگلہ ہلز کو آگ لگا دی۔ حکام کو ان خاتون کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ یہ ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہے۔‘
TikToker Dolly sets #MargallaHills on fire. Authorities must take strict action against this woman. This is unbearable and unacceptable.#MargallaHills #Dolly #dollyfashion #tiktokers #TikTok pic.twitter.com/MoLvIi5Uht
— Muhammad Talha Tariq (@blogs_by_Talha) May 18, 2022
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سیمی ایزدی کی سربراہی میں 20 مئی 2022 کو دن 11 بجے مارگلہ ہلز کا دورہ کرے گی۔ اس دورے کا مقصد مارگلہ ہلز اسلام آباد میں جنگلات میں لگنے والی حالیہ آگ کے بعد زمینی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ مارگلہ ہلز پر لگنے والی آگ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کیوں کہ مارگلہ ہلز پر کوئی آگ نہیں لگی ہے۔ آگ لگنے کے واقعات خیبر پختونخوا کی حدود میں ہوئے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا آگ لگنے اور ایک ماڈل کے اس کے سامنے فوٹو شوٹ کرانے کے واقعات دونوں مجرمانہ عمل ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے لیکن یہ دونوں واقعات اسلام آباد اور مارگلہ ہلز پر نہیں ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ موسم میں جنگلی آگ کا خطرہ رہتا ہے اپریل سے جون تک یہ سیزن چلتا ہے اور ساری دنیا یہاں تک کہ کیلیفورنیا تک میں یہ جنگلی آگ لگتی ہیں۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی نے بتایا ہے کہ اپنے جنگلات کے تحفظ کے لیے وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے 50 سے زیادہ فائر فائٹرز تعینات کیے ہوئے ہیں جبکہ سی ڈی اے نے اس سے زیادہ کا بندوبست کیا ہوا ہے۔