پنجاب: وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا معاملہ حل، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا امتحان برقرار

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لینے پر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو غیر موثر قرار دے کر نمٹا دیا۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لینے پر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو غیر موثر قرار دے کر نمٹا دیا (اے ایف پی)
 

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے جمعرات کو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لینے پر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو غیر موثر قرار دے کر نمٹا دیا۔

تاہم سیاسی تنازع اب تک سر اٹھائے کھڑا ہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت کے اعلان پر اب پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا امتحان برقرار ہے اور کئی سوال ابھی تک جواب طلب ہیں۔

کیا اب وزیر اعلی اسمبلیاں تحلیل کریں گے؟ مسلم لیگ ن کی قیادت نے رات گئے اچانک اعتماد کا ووٹ لینے پر تحفظات کا اظہار کیا مگر گورنر نے نتائج تسلیم کیوں کر لیے؟ اگر اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو وفاقی حکمران اتحاد کس طرح اس صورت حال کو روکنے کی کوشش کرے گا؟

اس حوالے سے تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ دونوں فریقین کے لیے معاملہ بات چیت سے حل کرنے کی صورت میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے بچ سکتی ہیں مگر اس کے لیے دونوں طرف سے سینیئر قیادت کو سامنے آنا ہوگا۔

پی ٹی آئی رہنما اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ دوسری جانب لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کے بقول پرویز الٰہی نے حکومتی اراکین کو اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے بلایا۔

عدالت سے معاملہ نمٹنے کے بعد صورت حال دوبارہ وہیں آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔

کیا اسمبلیاں تحلیل ہوں گی؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ایجنڈے کے بغیر اچانک اعتماد کا ووٹ لیا اور سپیکر کے مطابق انہیں 186 اراکین کی حمایت حاصل تھی جبکہ پانچ حکومتی اراکین غیر حاضر رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول حسن عسکری: ’یہ نتائج گورنر پنجاب نے بھی تسلیم کر لیے، کیس بھی نمٹ گیا مگر اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ اپنی جگہ موجود ہے، جس کا پی ٹی آئی قیادت نے فوری انتخابات کے لیے دباؤ کے طور پر اعلان کر رکھا ہے۔‘

حسن عسکری کے مطابق: ’پی ٹی آئی قیادت اب ایک دو دن انتظار کرے گی اور اگر وفاقی حکمران اتحاد سنجیدگی سے مذاکرات کی طرف نہیں آتا تو اسمبلی تحلیل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ترجمانوں کی جانب سے حالات خراب کیے جارہے ہیں، اس کے لیے سنجیدہ رہنماؤں کو دونوں طرف سے سامنے آنا ہوگا اور بات چیت شروع کرنی پڑے گی۔‘

ان کے خیال میں گورنر کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کے نتائج کسی سمجھوتے کے تحت نہیں بلکہ حقائق کو سمجھتے ہوئے تسلیم کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت بچانے میں تو کامیاب ہوگئی ہے لیکن اگلا امتحان اسمبلیوں کی تحلیل ہے۔ ’ان کے لیے دو صوبوں کی حکومت قربان کرنا اتنا آسان نہیں، لہذا وہ بھی اتنظار کریں گے کہ مذاکرات شروع ہوں اور ان کے مطالبات سنے جائیں۔ انتخابات کے شیڈول پر بات کی جائے۔‘

لاہور ہائی کورٹ میں آج کیا ہوا؟

گورنر پنجاب نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے بعد پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عدالت عالیہ نے 25 دسمبر کو ہونے والی سماعت پر گورنر کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کر کے وزیراعلیٰ کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا، تاہم انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے سے روک دیا تھا۔

اس معاملے پر گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی تھی، جسے آج تک کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔ بعدازاں رات گئے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اعلان کیا کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے دوران اجلاس اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے اور انہیں 186 ووٹ ملے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے اور صوبائی کابینہ تحلیل کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت آج تیسری بار لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی، جہاں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا تھا۔

سماعت شروع ہوتے ہی عدالت نے دونوں فریقین کے وکلا سے استفسار کیا کہ اعتماد کا ووٹ ہوچکا، اب تو معاملہ حل ہوگیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سپیکر کی جانب سے جواب عدالت میں جمع کروایا اور کہا کہ ’جمہوری روایت مکمل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لےلیا۔‘

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کتنے ووٹ حاصل کیے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب نے مطلوبہ اکثریت 186 ووٹ حاصل کیے۔‘

عدالتی حکم پر سرکاری وکیل نے سپیکر کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن پڑھ کر سنایا، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ’گورنر پنجاب کے اعتماد کے ووٹ کا مسئلہ حل ہو گیا، گورنر پنجاب کو اب اس پر اعتراض نہیں بنتا۔‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ ’تسلیم کرتے ہیں کہ اسمبلی کے معاملات میں گورنر مداخلت نہیں کر سکتا۔‘

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ ’کیا گورنر اس اعتماد کے ووٹ سے مطمئن ہیں؟‘

گورنر کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ’اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیے۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’مستقبل کے لیے بھی یہ طے ہونا ضروری ہےکہ مناسب وقت ہونا چاہیے۔ آپ کی نظر میں مناسب وقت کتنی مدت کا ہونا چاہیے؟‘

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’اگر اعتماد کے معاملے کو دیکھا جائے تو اس میں کل ملاکر 14 دن بنتے ہیں۔ میرے خیال سے اعتماد کے ووٹ کے لیے کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ 14 دن ہونے چاہییں۔ اسمبلی رولز کے تحت سات دن کا نوٹس دینا ضروری ہے۔‘

جسٹس عابد عزیز شیخ نے قرار دیا کہ ’عدالت کو کم سے کم وقت سے سروکار ہے۔ آخری حد تو گورنر خود بھی مقرر کرسکتے ہیں۔‘

گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان نے لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ ’گورنر سے رابطہ ہو گیا ہے اور گورنر نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی ہے،‘ جس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

دوسری جانب عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بھی بنا دیا۔ساتھ ہی عدالت عالیہ نے چیف سیکرٹری پنجاب کا وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کا 22 دسمبر کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان