پی ٹی آئی کے مزید استعفے منظور: حکومت کی حکمت عملی کیا؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد وفاقی حکومت کے لیے سیاسی بحران بڑھ گیا ہے، وہیں سپیکر کی جانب سے پی ٹی آئی کے مزید اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد نئی صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 

قومی اسمبلی کی عمارت کا اندرونی منظر۔ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے (تصویر: ریڈیو پاکستان)

سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارٹی وفد سپیکر قومی اسمبلی سے آج ملاقات کرے گا، جس میں سپیکر سے قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ مانگا جائے گا۔

حالیہ دنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد جہاں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ وفاقی حکومت کو سیاسی بحران حل کرنے میں مشکلات درپیش ہوں گی وہیں سپیکر کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد ایک نئی صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 

ایسے میں یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں واپس آنے کا عندیہ حکومت کے لیے چیلنج ہے؟ کیا عمران خان کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ درست تھا؟ کیا اب عمران خان کے پاس حکومت کو عام انتخابات کروانے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی آپشن موجود ہے یا نہیں؟ کیا پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آ کر شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ 

انڈپینڈنٹ اردو نے ان ہی سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ استعفوں سے متعلق ان کی مرضی نہیں چلے گی کیونکہ وہ اپریل 2022 میں استعفے دے چکے تھے۔ پبلک فورمز پر کہا جاتا رہا کہ استعفے منظور کریں، اب استعفے منظور ہونے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ واپس آنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپس آنے کے عندیے کے بعد استعفے منظور ہونے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن نے یہی پلان کیا تھا۔ جب آپ کھیلیں تو پھر ہم بھی اسی حساب سے کھیلیں گے، یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم ان کے لیے چیزیں آرام دہ بنا سکتے تھے۔ ‘

مستقبل کی حکمت عملی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ مریم نواز واپس آ رہی ہیں، جن کے بعد نواز شریف بھی آئیں گے۔

’گذشتہ سات آٹھ ماہ میں جو رجحان عمران خان کی طرف چلا گیا تھا وہ ہمیں مریم نواز کی واپسی کے لیے مل گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مقبول قیادت پاکستان آئے کیونکہ یہ الیکشن کا سال ہے۔ مریم نواز، نواز شریف کی واپسی کے لیے میدان تیار کریں گی جو فروری یا مارچ میں آ سکتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن نے مریم نواز کی پاکستان واپسی کے لیے 29 جنوری کی تاریخ دے رکھی ہے۔

محمد زبیر نے مزید کہا کہ ’عمران خان ہیجان کی کیفیت چاہتے ہیں، اگلے چند ہفتے شدید پولرائزیشن کے ہوں گے۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ مریم نواز کے آنے سے مسلم لیگ ن کے پاس ایک مضبوط رہنما ہوگا جو عوام میں جا کر سیاست کر سکے گا، جس سے ان کے پاس کھلا میدان نہیں ہوگا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی کے لیے اسمبلی واپس جا کر اپوزیشن لیڈر بننا شاید ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ انہیں یہ خیال کچھ تاخیر سے آیا ہے۔ یہ ان کے اپنے مفاد میں ہے کہ اسمبلی میں بیٹھ کر نگراں سیٹ اپ کے لیے مذاکرات کرتے اور اس میں ان کی رائے شامل ہوتی تو ان کے لیے زیادہ اچھا ہوتا۔ اب انہیں خیال آیا کہ نگراں حکومت میں راجہ ریاض کے شامل ہونے سے گڑبڑ ہو گئی ہے، وہ یہ موقع کھو چکے ہیں۔‘

کیا صدر مملکت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے؟

دوسری جانب ایک پی ٹی آئی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی جماعت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے گی۔

’ہمیں معلوم ہے کہ شہباز شریف کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے بعد انہیں 172 اراکین کی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور  اس عمل سے وفاقی حکومت پریشان تو ہوگی۔‘

کیا تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر سکتی ہے؟

81 استعفے منظور ہونے کے بعد اب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 49 رہ گئی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے 20 اراکین قومی اسمبلی میں پہلے سے موجود ہیں جن میں سے راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہیں۔

پی ٹی آئی کے باقی 49 اراکین اب بھی اپنا قائد حزب اختلاف بنا سکتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہو گا اگر سپیکر باقی استعفے قبول نہیں کرتے۔

قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے قاعدہ نمبر 39 اے کے مطابق اکثریتی ارکان کی جانب سے دستخط شدہ نوٹس سیکرٹری کو جمع کروانے اور سپیکر کی جانب سے دستخطوں کی تصدیق کر کے مطمئن ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد سپیکر فوری طور پر اس رکن کا اعلان کریں گے جسے قائد حزب اختلاف نامزد کیا گیا ہے۔

استعفوں کی منظوری کے حوالے سے سوال پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا کہ صرف ان ہی افراد کے استعفے منظور کیے گئے جنہوں نے سوچ سمجھ کر استعفے دیے اور جن کے ثبوت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر یا اخبارات، ٹیلی وژن پروگرام اور مجھ سے ملاقات ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے گذشتہ روز بھی پی ٹی آئی اراکین کے اسمبلی آنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اب بھی پارلیمان آ جائیں۔ اگر اب بھی آئیں گے تو میں ان کے استعفے منظور نہیں کروں گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان