’ان نشستوں پر استعفے منظور ہوئے جن پر جیت کا فرق کم تھا‘

پیپلزپارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ استعفوں کی منظوری کے لیے ان حلقوں کو منتخب کیا گیا جہاں پی ٹی آئی کے اراکین کی جیت کا مارجن کم تھا۔

پیہلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ایاز صادق 2014 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کے سیمینار میں شریک ہیں (تصویر: فیصل کریم کنڈی فیس بک)

پاکستان میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کی وجہ ان نشستوں پر پی ٹی آئی کی کم ووٹوں سے جیت ہے جو کہ ضمنی انتخاب میں شکست میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 11 ارکین قومی اسمبلی کے منظور کیے جانے والے استعفوں کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

11 استعفوں سے متعلق مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا سمیت سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر سوالات کیے جا رہے ہیں کہ 125 ارکان میں سے صرف ان 11 ارکان کے ہی استعفے پہلے کیوں منظور کیے گئے ہیں؟ حکومت کی ان 11 اراکین کے استعفوں کی منظوری کے پیچھے آخر کیا حکمت عملی ہے؟

وزیر اعلی پنجاب سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بھی تاثر دیا گیا کہ اب وفاق میں بھی تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کے بعد تاثر دیا گیا کہ 11 استعفوں کے پیچھے حکومت کی ایک حکمت عملی ہے۔

کیا حکومت نے ان اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے جو ووٹوں کے کم فرق سے جیت کر ایوان میں پہنچے تھے اور اب حکمراں اتحاد ان حلقوں پراپنے مشترکہ امیدوار جتوا کر وفاق میں اپنی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے بچا سکتی ہے؟

سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کہتے ہیں وہ بطور قائم مقام سپیکر پارٹی کے 125 ارکان کے استعفے پہلے ہی منظور کر چکے ہیں۔

قاسم سوری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’‏پاکستان تحریک انصاف کے 125 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے میں بطور سپیکر پہلے ہی منظور کرچکا ہوں، امپورٹڈ حکومت کے پاس پاکستان تحریک انصاف کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کو دوسری مرتبہ قبول کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ سب ڈرامے اپنی ڈوبی ہوئی ساکھ بچانے کی کوشش ہے۔‘

28 جولائی 2022 کو قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے علی محمد خان، فرخ حبیب، شیریں مزاری، فضل خان، شوکت علی،فخر زمان ،اعجاز شاہ جمیل احمد خان، اکرم چیمہ، شکور شاد اور شاندانہ گلزار کے استعفے منظور کیے جانے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔

قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے مطابق قاسم سوری کی جانب سے استعفوں کی منظوری میں قانونی سقم تھا جس کے باعث منظور کیے گئے استعفے الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائے گئے تھے۔

راجہ پرویز اشرف کے سپیکر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد استعفے ڈی سیل کروائے اور تمام ارکان کو استعفوں کی منظوری کے لیے 10 جون تک کی مہلت دی۔

تحریک انصاف کے ارکان کی سپیکر کے سامنے عدم حاضری کے بعد سپیکر نے 11 ارکان کے استعفے منظور کیے ہیں۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق یہ سپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ کس کے استعفے منظور کرتے ہیں اور کس کے نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلزپارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’استعفے مرحلہ وار منظور کیے جائیں گے لیکن باقی استعفے فی‌الحال منظور نہیں کیے جائیں گے۔ ان حلقوں پر انتخابات کروانے کے بعد باقی استعفے منظور کیے جائیں گے۔‘

مخصوص افراد کے ہی استعفے منظور کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف سیاسی جماعتوں کی تجاویز کے بعد ان حلقوں کو منتخب کیا گیا جہاں پی ٹی آئی کے اراکین کا مخالف پارٹی سے جیتنے کا مارجن کم تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کے تین حلقوں کے اراکین کے استعفے منظور کرنے کی تجویز دی تھی جن میں حلقہ نمبر237 کراچی ملیر دو، 239 کراچی کورنگی ایک، 246 کراچی ساؤتھ ایک شامل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس وقت مخصوص استعفے منظور کرنے کی ایک وجہ اراکین کا مخالف پارٹی سے کم مارجن پر جیتنا بھی ہے لیکن صرف اسی وجہ سے استعفے منظور کرنا نہیں ہے، اس میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ بگڑتے تعلقات بھی ہو سکتے ہیں جو کے آگے چل کر ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی صورت بھی اختیار کر سکتے تھے۔‘

عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’11 استعفوں کی منظوری ایک بہتر حکمت عملی ہے، اب حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے چاہییں اور ان کی کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومتی اتحاد 125 میں سے آدھی نشستیں بھی جیت لے تو یہ اتحاد کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اگر کل وفاق میں ممکنہ طور پر کوئی تحریک عدم اعتماد لائی بھی جاتی ہے تو اس کو با آسانی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت بلیک میلنگ سے بھی بچ جائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو استعفوں کی منظوری کا یہ فیصلہ پہلے کرنا چاہیے تھا۔ حکومت نے فیصلے میں تاخیر ضرور کی ہے لیکن اب بھی کوشش کرنی چاہیے کہ خالی ہونے والی نشستوں سے آدھی نشستیں حکومت اپنے نام کرے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کے مطابق یہ عمل ’احمقانہ‘ ہے۔ یہ فیصلہ معتصابانہ لگتا ہے جسے عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔

’پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپس آنے اور تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق خبریں سننے کے بعد شاید یہ کیا گیا ہو لیکن یہ عمل میرے سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست