13 سالہ گھریلو ملازمہ کو جلانے والے مبینہ طور پر پولیس اہلکار نکلے

گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں بچی پر تشدد کرنے اور جھلسانے والے دونوں بھائیوں کی شناخت مبینہ طور پر بطور پولیس اہلکار ہوئی ہے۔

لاہور کے علاقے جنوبی چھاؤنی میں ایک 13 سالہ گھریلو ملازمہ کو گھر کے مالکان نے تشدد کرنے کے بعد جھلسا دیا، جسے لاہور کے سرکاری ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔

گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں بچی پر تشدد کرنے اور جھلسانے والے دونوں بھائیوں کی شناخت بطور پولیس اہلکار ہوئی ہے۔

شیخ ندیم اور شیخ اکمل نامی دونوں بھائی آپریشن ونگ لاہور میں سب انسپیکٹر تھے۔

ڈی آئی جی آپریشنز افضال احمد کوثر نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شیخ ندیم اور شیخ اکمل کو ملازمت سے معطل کرتے ہوئے واقعے کی مکمل انکوائری کا حکم دیا ہے۔

افضال احمد کوثر نے کہا ہے کہ اس ’انسانیت سوز واقعے کی شفاف انکوائری کروا کر ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘

دوسری جانب میو ہسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر صدیم ہاشمی کے مطابق بچی 30 سے 40 فیصد تک جھلس چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچی کی حالت بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ جنسی زیادتی کے حوالے سے بھی ٹیسٹ کیا جاٸے گا۔

اس واقعے کی ایف آئی آر بچی کی والدہ سکینہ بی بی کی مدعیت میں تھانہ جنوبی کینٹ میں دفعہ 324 اور 354 کے تحت درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں بچی کی والدہ سکینہ نے موقف اختیار کیا کہ ان کی بیٹی گذشتہ نو ماہ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ، جو اب دس ہزار روپے کر دیے گئے تھے، پر افشاں نامی خاتون کے ہاں ملازمہ تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق 23 جنوری کی دوپہر ڈھائی بجے وہ اور ان کے شوہر افشاں کے گھر اپنی بچی سے ملنے پہنچے تو خاتون کے بھائیوں سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے بچی سے ملوانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بچی گھر میں کام کر رہی ہے مل نہیں سکتی۔

سکینہ کے مطابق: ’جب میں نے اور میرے شوہر نے بچی سے ملنے کی ضد کی اور شور مچایا تو افشاں اور ان کے دونوں بھائی ہمیں گھر کے اندر لے گئے اور ٹال مٹول شروع کر دی۔ ہم نے تب بھی بچی سے ملنے کی ضد کی تو انہوں نے ہمیں ہماری بیٹی سے ملوایا جو کہ زخمی حالت میں تھی اور اس کی دونوں ٹانگیں مکمل طور پر جلی ہوئی تھیں اور ان پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘

سکینہ نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے افشاں اور اس کے بھائیوں نے بہت زیادہ مارا ہے اور اس کی ٹانگوں پر چولہا گرایا ہے، جس سے اس کی ٹانگیں جل گئیں۔

سکینہ نے مزید بتایا کہ ان کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ گھر والے اس حالت میں بھی زبردستی اس سے گھر کا کام کرواتے رہے ہیں۔

متاثرہ بچی اس وقت لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو متاثرہ بچی کی جو تصاویر موصول ہوئی ہیں ان میں بچی کا جسم بری طرح جھلسا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب متاثرہ بچی نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ اسے افشاں اور ان کے گھر والے ’غلط کام کے لیے کہتے تھے،‘ جس سے انہوں نے انکار کیا۔

بچی کے مطابق: ’وہ لائٹر دکھا کر ڈراتے بھی تھے کہ جلا دیں گے۔ ایک دن انہوں نے مجھے سچ میں جلا دیا۔‘

بچی نے مزید بتایا کہ مالکان ان سے اسی حالت میں کام بھی کرواتے تھے، مارتے بھی تھے اور ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے کر گئے اور اسی حالت میں انہیں 15 دن اپنے گھر میں رکھا جبکہ ان پر چوری کا الزام بھی لگایا گیا۔

بچی کے مطابق: ’میں چیختی تھی کہ میری امی کو بتائیں، بات کروائیں لیکن وہ نہ انہیں بتاتے تھے، نہ میری ان سے فون پر بات کرواتے تھے۔ جب امی کا فون آتا تو وہ بہانے کر دیتیں کہ میں ادھر ہوں یا میں ادھر ہوں۔‘

اس کیس کے حوالے سے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کینٹ ڈاکٹر محمد رضا تنویر کا کہنا ہے کہ بچی کو جھلسانے اور تشدد کرنے کے اس واقعے میں ایک خاتون سمیت تین افراد شامل ہیں، جن کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے کر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ملزمان کو جلد گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

سی سی پی او لاہور ڈاکٹر بلال صدیق کمیانہ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور ایس پی انویسٹی گیشن کینٹ سے فوری رپورٹ طلب کی ہے۔ سی سی پی اور لاہور نے ہدایات جاری کی ہیں کہ بچی پر تشدد میں ملوث مالکان کی فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے اور ان کی گرفتاری کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

’ملزمان کو عبرت ناک سزا دینا بہت ضروری‘

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو لاہور کی چیئر پرسن سارہ احمد نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے کر اپنے بیورو کی ٹیم کو بچی کے والدین سے فوری رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سارہ احمد کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ مالکان نے پہلے بچی پر تشدد کیا اور اس کے بعد اسے جلایا۔ بچی کے جسم اور ٹانگوں پر جلنے کے نشان ہیں۔

انہوں نے یقین دلایا کہ تشدد کی شکار کمسن گھریلو ملازمہ کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے گا اور ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سارہ احمد نے مزید کہا کہ ہماری ترجیح ہو گی کہ اگر متاثرہ بچی کو علاج میں کوئی مدد درکار ہے تو ہم انہیں وہ مہیا کریں گے۔ ’اگر بچی ہمارے پاس چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رہنا چاہے تو ہم انہیں ایک محفوظ جگہ فراہم کریں گے اور ان کی تعلیم سمیت ہر چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں گے۔‘

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو  کی چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہونا چاہیے اور اس میں ملزمان کو عبرت ناک سزا دینا بہت ضروری ہے۔ 

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل ایڈوکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ایف آئی آر میں درج دفعات کی تفصیل بتائی۔

احمر مجید کے مطابق: ’دفعہ 324 اقدام قتل ہے جبکہ 354 میں اگر کسی کی عزت پر کوئی آنچ آئے جیسے اگر کسی نے دوپٹہ لیا ہوا ہے اور اسے کوئی کھینچتا ہے یا کوئی بدتمیزی کرتا ہے، جیسے دھکے دیتا ہے یا مکے وغیرہ مارتا ہے، تو یہ اس کے زمرے میں آتی ہیں، لیکن اس کیس میں جس طرح بچی جھلسی ہے تو اس میں مزید دفعات شامل ہونی چاہییں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بچی کے اہل خانہ سے رابطہ کریں گے کہ اگر انہیں کسی قسم کی کوئی قانونی مدد چاہیے تو وہ انہیں مفت فراہم کریں گے۔

احمر مجید نے مزید کہا کہ ’ایسے واقعات ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ تو پھر بھی بچی کی قسمت اچھی ہے کہ اس کی زندگی بچ گئی، ورنہ اگر ہم صرف اخباروں کا ڈیٹا ہی دیکھیں تو گذشتہ 15 برس میں 100 سے 150 بچے صرف پنجاب کے اندر اپنے آجر کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان