خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن تا حال کیوں غیر فعال ہے؟

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے تنقید کرتے ہیں کہ جہاں ایک جانب حکومت چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے کی سرپرستی کرنے میں بخل سے کام لیتی رہی ہے اور ادارے کو درکار فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے، وہیں اس کمیشن کا قیام عمل میں لاتے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

 راولپنڈی میں  ایک بچہ سڑک کنارے کھڑی ریڑھی پر 17 مئی 2020 کو سویا ہوا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی )

2010 میں بچوں کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت تشکیل پانے والا خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن تاحال اپنے اغراض و مقاصد حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے حال ہی میں سٹریٹ چلڈرن کے مسائل پر مبنی مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران محکمہ سوشل ویلفیئر کو ان بچوں کے مسائل سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔

جسٹس قیصر رشید خان نے محکمہ سوشل ویلفیئر کے سیکریٹری کو شہر کے تمام ویلفیئر ہومز، ان میں رہنے والے سٹریٹ چلڈرن کی تعداد اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے کیے گئے اقدامات کی فوری اور تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایات دی ہے۔

درخواست گزاروں میں شامل وکیل سید سیف اللہ محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے چھ سال قبل 2017 میں رِٹ دائر کی تھی تاہم اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی سٹریٹ چلڈرن کے حالات نہیں بدلے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی درخواست کے بعد بچوں سے متعلق صوبائی قانون میں ترامیم تجویز کی گئیں، پناہ گاہیں بنائی گئیں اور یتیم خانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن نہ تو سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی ان کے خطرات کم ہوئے۔

سید سیف اللہ محب کاکا خیل نے بتایا کہ ’یہ رِٹ میں نے اس وقت دائر کی تھی جب کچھ موقعوں پر رات گئے میں نے سڑک پرکچھ سہولت کاروں کو بھیک مانگتے بچوں سے پیسے لیتے دیکھا۔ میں نے اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔‘

ان کے مطابق: ’بازاروں، سڑکوں، گلی کوچوں غرض ہر جگہ کہیں بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں تو کہیں وہ والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے کوئی مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔‘

سیف اللہ محب کا کہنا تھا کہ پشاور کے جناح باغ میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ بھی اگرچہ کئی مرتبہ ذمہ داران کے سامنے لایا جاچکا ہے لیکن یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔

کاکاخیل نے بتایا کہ مختلف درخواست گزاروں نے مختلف اوقات میں جمع کروائی گئی درخواستوں میں مجموعی طور پر سٹریٹ چلڈرن کے تحفظ، بھکاری اور منشیات کے عادی بچوں کے مسائل اور بچوں کی جسم فروشی کے خلاف کارروائی پر بات کی تھی، جن کی ایک ساتھ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے متعلقہ اداروں کو ہدایات دی ہیں۔

دوسری جانب یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ حکومتی ادارہ چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کیوں سٹریٹ چلڈرن کے مسائل حل کرنے میں فعال کردار ادا نہیں کرسکا۔

اس بارے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے ایک حاضر سروس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کا ادارہ صرف شکایت کی صورت میں ایکشن لینے کا مجاز ہے، جس کے بعد وہ متعلقہ علاقوں اور مقامات اور عمارتوں میں چھاپے بھی مارتے ہیں اور بچوں کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ اکثر لوگ محکمہ سوشل ویلفیئر اور چائلڈ پروٹیکشن کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کردیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن کا کام صرف بچوں اور ان کے مسائل تک محدود ہے۔

ان کے مطابق: ’کوئی بھی شہری ہمارے دفتر آکر شکایت کرے ہم اس پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔ ہاں البتہ اگر کسی درخواست گزار نے جھوٹی خبر بنائی ہو تو اس کی سزا بھی تقریباً تین سال ہے۔‘

متعلقہ افسر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے سات اضلاع بشمول مہمند میں چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں قائم ہیں جبکہ صوبے کے تمام اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس فعال ہیں اور وہاں سوشل ویلفیئر افسران اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔

دوسری جانب، بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے تنقید کرتے ہیں کہ جہاں ایک جانب حکومت چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے کی سرپرستی کرنے میں بخل سے کام لیتی رہی ہے اور ادارے کو درکار فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے، وہیں اس کمیشن کا قیام عمل میں لاتے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

سال 2010 میں بچوں کے تحفظ ایکٹ کے تحت تشکیل پانے والے کمیشن کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ہر چار ماہ بعد ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس میں بچوں کے مسائل، معاملات اور واقعات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کی جائے گی، جس کو حکومتی عہدیداروں کے ساتھ زیر بحث لاکر ایک مضبوط، مربوط اور مستحکم نظام کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

لیکن سماجی کارکنوں کے مطابق مختلف عوامل کی وجہ سے کمیشن اپنا فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور کچھ یہی صورتحال دوسرے متعلقہ اداروں کے ساتھ بھی ہے۔

بچوں کے حقوق و تحفظ پر کام کرنے والے خیبر پختونخوا کے معروف سماجی کارکن عمران ٹکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تعلیم مفت اور لازمی قرار دینے سے بچوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ان کو خطرات سے بچایا جاسکتا ہے۔

عمران ٹکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری جائزہ رپورٹس آؤٹ آف سکول بچوں کی تعداد بہت بڑے فرق کے ساتھ پیش کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اس تعداد کے حوالے سے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جب بچے سکول نہیں جاتے تو یا تو وہ مزدوری میں لگ جاتے ہیں اور یا سٹریٹ چلڈرن بن جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران ٹکر کے مطابق: ’چائلڈ لیبر کا بھی 1996کے بعد کوئی سروے نہیں ہوا البتہ اب لیبر ڈیپارٹمنٹ نے ایک جامع سروے شروع کیا ہے جو 2022 کے اختتام سے قبل مکمل ہوجائے گا اور جس میں بچوں کی جنس، عمر، تعلیم، رسمی یا غیر رسمی تعلیم اور دیگر تمام معلومات مل سکیں گی۔‘

عمران ٹکر نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 کے قانون کے تحت بچوں کا ادارہ ’زمونگ کور‘ بھی بنایا گیا ہے۔

ان کے مطابق: ’سہولیات کے اعتبار سے یہ ایک عالمی معیار کا ادارہ ہے لیکن اس ادارے میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے ایک معیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ’زمونگ کور‘ میں رہنے والے بچوں کی تعداد صرف 600 کے لگ بھگ ہے، جو کہ بہت کم ہے۔‘

ٹکر کا کہنا ہے کہ ہر وہ بچہ جس کی عمر 18 سال سے کم ہے اور اس کو تحفظ دینے کی ضرورت ہو، حکومت کو اسے بغیر کسی معیار کے اپنی پناہ میں لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے بعد سماجی کارکنوں اور عوام کی جانب سے حکومت پر بچوں کے تحفظ کے قانون برائے 2010 میں ترامیم لانے کے لیے دباؤبڑھ گیا تھا۔

اس بل کو 2021 میں صوبائی کابینہ میں پیش کرکے اس کا متنازع حصہ نکال کر اس بل کے ڈرافٹ کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔

مجوزہ ترمیم میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کی ویڈیو عام کرنے کا ذکر تھا، جس کے بارے میں متفرق آرا سامنے آنے کے بعد اس حصے کو بل سے نکال دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان